وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ ۚ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا
اور افلاس کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو ، انہیں اور تمہیں ہم رزق دیتے ہیں ان کا قتل کرنا بڑا گناہ ہے ۔
وَ لَا تَقْتُلُوْا اَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ اِمْلَاقٍ ....: اگرچہ اولاد میں لڑکے لڑکیاں دونوں شامل ہیں، مگر عرب کی تاریخ میں اکثر لڑکیوں ہی کو قتل کرنے کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَ اِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ ﴾ [ التکویر : ۸ ] ’’اور جب زندہ دفن کی گئی سے پوچھا جائے گا۔‘‘ ’’الْمَوْءٗدَةُ ‘‘ مؤنث لانے سے ظاہر یہی ہے کہ زندہ درگور لڑکی ہی ہوتی تھی، لیکن اگر اسے ’’نفس موء ودہ‘‘ کہا جائے توپھر لڑکا لڑکی دونوں مراد ہو سکتے ہیں، کیونکہ ’’نفس‘‘ کا لفظ زبان عرب میں مؤنث ہے، سو معنی ہو گا : ’’اور جب زندہ درگور کی ہوئی جان سے سوال کیا جائے گا۔‘‘ اور اگرچہ عام طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ وہ لڑکی کو غیرت کی وجہ سے قتل کرتے تھے، مگر اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی سچا نہیں ہو سکتا۔ اس نے مطلق اولاد لڑکے لڑکی دونوں کا ذکر فرمایا ہے اور قتل کا سبب موجودہ فقر یا آئندہ فقر کا خوف بیان فرمایا ہے، ہاں یہ درست ہے کہ اولاد کو قتل کا باعث فقر کے علاوہ بے جا غیرت بھی تھا۔ ’’نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِيَّاكُمْ ‘‘ اور ’’ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِيَّاهُمْ ‘‘ میں تقدیم و تاخیر کی حکمت اور دوسرے فوائد کے لیے دیکھیے سورۂ انعام (۱۵۱) ’’ خِطْاً ‘‘ اور ’’اِثْمٌ‘‘ کا وزن اور معنی ایک ہی ہے، یعنی دانستہ گناہ۔