إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا
تیرا رب جس کی چاہے روزی فراخ کرے اور جس کی چاہے تنگ کرے ، وہ اپنے بندوں کا دانا بینا ہے ۔
1۔ اِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَ يَقْدِرُ: یعنی اگر حد سے زیادہ خرچ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کسی کا فقر دور کرنا چاہتے ہیں تو یہ آپ کے اختیار میں نہیں، آپ جتنا بھی دے لیں اگر رب تعالیٰ اس کے رزق کا دروازہ کشادہ نہ کرے تو کوئی اسے نہیں کھول سکتا، آپ اللہ کے حکم کے مطابق اعتدال سے خرچ کریں، اس کے فقر و غنا کی فکر آپ کا کام نہیں اور نہ یہ آپ کے بس کی بات ہے۔ 2۔ اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِيْرًۢا بَصِيْرًا : یعنی وہ خوب جانتا ہے کہ کسے کتنا رزق دینا ہے۔ کسی کو زیادہ اور کسی کو کم رزق دینا اس کی حکمت ہے۔ (دیکھیے شوریٰ : ۲۷) اگر سب لوگ برابر ہوتے تو دنیا کے کام چل ہی نہ سکتے۔ (دیکھیے زخرف : ۲۲) دولت مند ہونا یا فقیر ہونا نیکی یا بدی پر منحصر نہیں، بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے۔ (دیکھیے زخرف : ۳۳ تا ۳۵) زبردستی اس فرق کو مٹایا نہیں جا سکتا، جیسا کہ کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کی خواہش اور کوشش تھی، جس کے لیے انھوں نے لاکھوں لوگ تہ تیغ کیے مگر منہ کی کھائی۔ کیونکہ یہ فطرت سے جنگ ہے جو کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔ رہی سرمایہ داری کہ سود اور دوسرے ناجائز طریقوں سے تمام اموال کے مالک صرف چند لوگ بن بیٹھیں اور باقی سب ان کے محتاج ہوں، یہ بھی اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں اور جہاں یہ نظام ہو گا وہ معاشرہ بھی لامحدود ظلم و ستم اور حرص و ہوس کا شکار ہو جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ امیر و فقیر کے اس فرق کو ختم کرنا نہیں بلکہ اعتدال پر رکھنا ضروری ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف ناجائز طریقے سے دولت حاصل کرنے کو حرام قرار دیا، چوری ڈاکے، غصب، دھوکے اور سود کی تمام صورتیں حرام قرار دیں، تو دوسری طرف جائز طریقوں سے کمائی ہوئی دولت کو زکوٰۃ، صدقات، میراث اور دوسرے احکام کے ذریعے سے معاشرے میں پھیلا دینے کا حکم دیا۔ ان احکام پر عمل کرنے کی صورت میں معاشرے میں امیری و غریبی میں اعتدال قائم رہے گا، پھر نہ سرمایہ دارانہ طریقے کی وجہ سے امریکہ اور یورپی ممالک کی طرح دولت چند آدمیوں کی مٹھی میں جمع ہونے سے پیدا ہونے والے مظالم ہوں گے اور نہ اس فطری فرق کو زبردستی اور مصنوعی طریقوں سے ختم کرنے کی کوشش سے وہ خرابیاں پیدا ہوں گی جو روس، چین اور دوسرے کمیونسٹ ممالک میں پیدا ہوئیں کہ انسان انسانیت کے مرتبے سے گر کر محض ایک حیوان بن گیا، لوگوں کو ان کی فطری آزادی سے محروم کر دیا گیا، حتیٰ کہ اس نظام پر مبنی تمام ممالک آخر کار ناکام ہونے کی وجہ سے اسے چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور وہاں کے رہنے والے مظلوم مسلم اور غیر مسلم سب لوگوں کو مسلمانوں کے جہاد کی برکت سے اس نظام سے نجات اور آزادی کی زندگی نصیب ہوئی۔ (فالحمد للہ) اب بھی اگرچہ وہاں اس کی باقیات موجود ہیں، جن کی وجہ سے ظلم و ستم کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا، اس لیے مسلمانوں کا فرض ہے کہ تمام دنیا کو سرمایہ داری، کمیونزم اور دوسرے تمام ظالمانہ نظاموں سے نجات دلا کر اسلام کا نظام عدل نافذ کریں۔ یہ کام اللہ کے فضل سے شروع ہو چکا ہے اور جہاد اسلامی کی برکت سے تمام دنیا پر اللہ کا دین غالب ہو کر رہے گا۔ (ان شاء اللہ) جیسا کہ فرمایا : ﴿هُوَ الَّذِيْ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ ﴾ [ التوبۃ : ۳۳ ] ’’وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا، تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے، خواہ مشرک لوگ برا جانیں۔‘‘