مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا
جو دنیا کا طالب ہے ، فورا ہم اس کو اسی دنیا میں جو چاہیں دیتے ہیں ‘ جس کو ہم دیتا چاہیں ، پھر ہم نے اس کے لئے دوزخ مقرر کیا ہے جس میں ملامت سن کر اور مردود ہو کر داخل ہوگا ،
1۔ مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ ....: صاحب کشاف نے فرمایا، وہ شخص جس کا مقصود جلدی حاصل ہونے والی (یعنی دنیا) ہو اور اس کے سوا اس کا کچھ مقصد نہ ہو، جیسا کہ کفار اور اکثر فاسقوں کا حال ہے تو ہم دنیا کے فوائد میں سے جس قدر چاہتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں عطا فرما دیتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس معاملے میں دو قیدیں لگا دیں، ایک یہ کہ ہم دنیا کی وہ چیز اتنی دیتے ہیں جتنی ہم چاہتے ہیں، دوسری قید یہ کہ صرف اسے دیتے ہیں جس کا ہم ارادہ کرتے ہیں۔ اور واقعی ایسا ہی ہے، آپ ان میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھیں گے کہ وہ جتنی بھی تمنا رکھیں انھیں اس کا کچھ حصہ ہی ملتا ہے اور بعض اوقات کچھ بھی نہیں ملتا، سو ان کے لیے دنیا کا فقر اور آخرت کا فقر دونوں جمع ہو گئے۔ رہا متقی مومن تو اس کا مقصود صرف آخرت ہوتا ہے، چنانچہ آخرت میں اس کا غنی ہونا یقینی ہے، اسے پروا نہیں ہوتی کہ دنیا کی آسائش اسے ملتی ہے یا نہیں، اگر اسے دنیا میں بھی مل جائے تو وہ شکر کرتا ہے، اگر نہ ملے تو صبر کرتا ہے، پھر کئی دفعہ فقر اس کے لیے بہتر اور اس کی مراد کے حصول میں زیادہ مددگار ہوتا ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ ہود (۱۵، ۱۶) اور سورۂ شوریٰ (۲۰)۔ 2۔ ’’ مَذْمُوْمًا ‘‘ ’’ذَمٌّ‘‘ سے اسم مفعول ہے جو مدح کی ضد ہے۔ ’’ مَدْحُوْرًا ‘‘ ’’دُحُوْرٌ‘‘ سے اسم مفعول ہے، جس کا معنی دور کرنا، دفع کرنا ہے، یعنی آخرت میں اس کے عمل کسی طرح بھی قبول نہیں کیے جائیں گے۔