وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَيْكَ مِن قَبْلُ ۖ وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
اور یہود پر ہم نے وہی حرام کیا تھا جو پہلے ہم تجھے سنا چکے ، اور ان پر ہم نے کچھ ستم نہیں کیا تھا ، لیکن وہ اپنی جانوں پر آپ ستم کرتے تھے ۔
1۔ وَ عَلَى الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا ....: حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے جب مسلمان پر حرام کردہ چیزوں مردار اور خون وغیرہ کا ذکر فرمایا اور صرف مجبوری کے وقت انھیں جائز قرار دینے کا ذکر فرمایا، تاکہ امت پر آسانی رہے تو اس کے بعد یہودیوں پر ان چیزوں کے حرام کرنے کا ذکر فرمایا، جن کا ذکر پہلے سورۂ نساء (۱۶۰) اور سورۂ انعام (۱۴۶) میں گزر چکا ہے، جو پاکیزہ اور حلال ہونے کے باوجود ان کی سرکشی اور ظلم کی وجہ سے ان پر حرام کی گئی تھیں اور اس اصر و اغلال میں شامل تھیں جو ان کی سرکشی کی وجہ سے ان پر لادے گئے تھے۔ پھر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے پر ان کی حرمت ختم ہوئی اور صرف وہ چیزیں حرام کی گئیں جن کا حرام کرنا بطور سزا نہیں بلکہ بطور مصلحت و رحمت تھا۔ 2۔ وَ مَا ظَلَمْنٰهُمْ وَ لٰكِنْ كَانُوْا....: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ نساء (۱۶۰، ۱۶۱) اس سے یہودیوں کے اس دعویٰ کی بھی تردید ہو گئی کہ ان پر حرام کردہ چیزیں ہمیشہ سے حرام چلی آ رہی ہیں، اس لیے ہمیشہ کے لیے حرام ہیں۔ مزید دیکھیے سورۂ آل عمران (۹۳)۔