وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ ۖ فَإِنِ انتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ
ان سے یہاں تک لڑو کہ فسادباقی نہ رہے اور دین خدا کا ہوجائے ، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بجز ظالموں کے کسی پر زیادتی نہیں چاہئے ۔
1۔ یعنی ان سے اس وقت تک لڑتے رہو جب تک فتنہ (شرک اور اس پر مجبور کرنے کے لیے ظلم و ستم) کا ہر طرح سے قلع قمع نہیں ہوتا اور اللہ کا دین ہر طرح سے غالب نہیں آ جاتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’مجھے حکم دیاگیا ہے کہ میں تمام لوگوں سے جنگ کروں ، یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں ، پھر جب وہ یہ کام کر لیں تو انھوں نے اپنے خون اور اپنے اموال مجھ سے محفوظ کر لیے مگر اسلام کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔‘‘ [ بخاری، الإیمان، باب ﴿ فإن تابوا و أقاموا.... ﴾ : ۲۵ ] 2۔اِلَّا عَلَى الظّٰلِمِيْنَ : یعنی اگر یہ شرک سے یا مسلمانوں کے ساتھ لڑائی سے باز آ جائیں تو اس کے بعد جو شخص ان سے جنگ کرے گا وہ ظالم ہے اور اسے اس زیادتی کی سزا ملے گی۔ یہاں ”عُدْوَانَ“ کا لفظ ایسی ہی سزا کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ( ابن کثیر)دوسرا معنی یہ ہے کہ اگر وہ ظلم یعنی شرک سے باز آ جائیں تو اب ان پر زیادتی جائز نہیں ، کیونکہ اب وہ ظالم نہیں ۔ عدوان سے مراد وہ زیادتی ہے جو مقابلے میں ہوتی ہے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے : ﴿فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ﴾ [ البقرۃ : ۱۹۴] ’’پس جو تم پر زیادتی کرے سو تم اس پر زیادتی کرو، اس کی مثل جو اس نے تم پر زیادتی کی ہے۔‘‘ (ابن کثیر)