وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ
اور جب دن ہم ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے ، پھر کافروں کو اذن نہ ہوگا ، اور نہ ان سے عذر قبول کئے جائیں گے ،
1۔ وَ يَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًا : یعنی قیامت کے دن ہر امت کا پیغمبر اللہ کے سامنے کھڑا ہو گا اور ان تک حق پہنچا دینے کی شہادت دے گا، ساتھ ہی اگر انھوں نے تصدیق کی ہو گی تو اس کی اور اگر جھٹلایا ہو گا تو اس کی بھی شہادت دے گا۔ پیغمبروں کی وفات کے بعد جن لوگوں نے حق پہنچایا وہ یہ شہادت دیں گے۔ اس میں نعمت کے منکروں کے لیے وعید ہے۔ شہادت کے مفہوم کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۴۳)، نساء (۴۱)، حج (۷۸) اور سورۂ زمر (۶۹)۔ 2۔ ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا : پھر کافروں کو اجازت نہیں دی جائے گی۔ کس چیز کی؟ دوسری جگہ اس کی وضاحت آئی ہے، اس میں سے ایک تو یہ ہے کہ اس دن نہ وہ بول سکیں گے اور نہ انھیں عذر کرنے کی اجازت دی جائے گی، جیسے فرمایا : ﴿ هٰذَا يَوْمُ لَا يَنْطِقُوْنَ (35) وَ لَا يُؤْذَنُ لَهُمْ فَيَعْتَذِرُوْنَ ﴾ [ المرسلات : ۳۵، ۳۶ ] ’’یہ دن ہے کہ نہ وہ بولیں گے اور نہ انھیں اجازت دی جائے گی کہ وہ عذر کریں۔‘‘ دوسری یہ کہ جب وہ کہیں گے : ﴿ رَبِّ ارْجِعُوْنِ (99) لَعَلِّيْ اَعْمَلُ صَالِحًا فِيْمَا تَرَكْتُ ﴾ [ المؤمنون : ۹۹، ۱۰۰ ] (اے میرے رب! مجھے واپس بھیجو، تاکہ میں جو کچھ چھوڑ آیا ہوں اس میں کوئی نیک عمل کر لوں) تو انھیں واپس جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، کیونکہ واپس جانے پر بھی وہ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے ہیں۔ ( دیکھیے انعام : ۲۸) قرآن کی بلاغت دیکھیے، یہ فرمایا کہ اجازت نہیں دی جائے گی، یہ ذکر نہیں کیا کہ کس چیز کی؟ کیونکہ وہ کئی چیزیں ہیں۔ 3۔ وَ لَا هُمْ يُسْتَعْتَبُوْنَ : ’’عَتَبَ يَعْتُبُ عَتْبًا‘‘ (ن، ض) ناراض ہونا۔ ’’أَعْتَبَ يُعْتِبُ‘‘ ناراضگی دور کرنا۔ ’’اَلْعُتْبٰي‘‘ راضی کرنا، منانا۔ ’’اِسْتَعْتَبَ فُلَانٌ فُلَانًا‘‘ یعنی فلاں نے دوسرے پر اپنی ناراضگی ظاہر کی، تاکہ وہ اس کی ناراضگی دور کر سکے، یا معافی مانگ سکے۔’’ يُسْتَعْتَبُوْنَ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ان کے سامنے اس لیے ناراضگی کا اظہار نہیں کیا جائے گا کہ وہ معافی کی درخواست کرکے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی دور کر سکیں، یعنی انھیں اللہ کو راضی کرنے کی درخواست کا موقع ہی نہیں دیا جائے گا۔