ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوكًا لَّا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَمَن رَّزَقْنَاهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَجَهْرًا ۖ هَلْ يَسْتَوُونَ ۚ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
اللہ نے ایک مثال بیان کی کہ ایک غلام ہے پرائے بس میں ، جو کسی شئے پر اختیار نہیں رکھتا ، اور ایک وہ شخص ہے جسے ہم نے اپنی طرف سے اچھی روزی دی ، سو وہ اس میں سے چھپا کر اور اعلانیہ خرچ کرتا ہے کیا (دونو) برابر ہیں ؟ اللہ ہی لائق حمد ہے پر ان میں اکثر نہیں جانتے ۔ (ف ٢)
1۔ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْكًا....: ’’ عَبْدًا ‘‘ کا معنی ہی غلام ہے، پھر بھی ’’ مَمْلُوْكًا ‘‘ کی تصریح اس لیے فرمائی کہ ایک لحاظ سے آسمان و زمین کا ہر شخص ہی ’’ عَبْدًا ‘‘ ہے، فرمایا : ﴿ اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِلَّا اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا ﴾ [ مریم : ۹۳ ] ’’آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے وہ رحمان کے پاس عبد (غلام) بن کر آنے والا ہے۔‘‘ سو یہاں مراد وہ عبد ہے جو کسی آدمی کی ملکیت میں ہے۔ 2۔ وَ مَنْ رَّزَقْنٰهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا....: یہاں ’’ مَمْلُوْكًا ‘‘ کے مقابلے میں ’’مَالِكًا‘‘ کہنے کے بجائے ’’وَ مَنْ رَّزَقْنٰهُ مِنَّا ‘‘ اس لیے فرمایا کہ انسان مالک بھی ہو تو اس کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ ہمارا عطا کردہ ہے، ساتھ اسے یہ بھی یاد دلا دیا کہ ہمارا عطا کردہ پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے رہو، اپنا سمجھ کر چھپا کر نہ بیٹھ جاؤ۔ 3۔ هَلْ يَسْتَوٗنَ : یعنی کسی کو بھی اللہ تعالیٰ کا شریک بنانے میں ان لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جو ایک عاجز مملوک غلام کو، جو اپنے مالک کی اجازت کے بغیر ایک کوڑی خرچ نہیں کر سکتا، ایک آزاد شخص کے برابر کر دے جو اپنے مال کا مالک ہے اور جہاں چاہے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتا رہتا ہے۔ تو کیا یہ بے بس غلام اور وہ آزاد مالک کبھی برابر ہو سکتے ہیں؟ حالانکہ یہ دونوں انسان ہوتے ہیں، ذہنی اور جسمانی ساخت اور قوتوں میں تقریباً ایک جیسے ہیں، پھر بھی یہ ہر گز برابر نہیں ہو سکتے۔ تو جب یہ برابر نہیں ہو سکتے تو کوئی بھی بت یا بزرگ، نبی یا فرشتہ، زندہ یا مردہ، جو سب اللہ کی مخلوق و مملوک ہیں، وہ ساری کائنات کے خالق اور ہر چیز کے مالک کے برابر ہو سکتے ہیں!؟ (قاسمی) 4۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ : اوپر اللہ تعالیٰ نے یہ سوال کہ ’’کیا یہ برابر ہو سکتے ہیں‘‘ ذکر کرنے کے بعد خود کوئی جواب نہیں دیا، کیونکہ اس کا جواب سوال کے اندر ہی موجود ہے اور ہر سننے والا یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ’’ہر گز نہیں۔‘‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے خود اپنی تعریف فرمائی کہ ایسی عمدگی سے تمھیں کوئی نہیں سمجھائے گا۔ 5۔ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ : معلوم ہوا کہ اہل کتاب اور مشرکین مکہ میں سے کچھ لوگ توحید کی حقیقت کو پہچانتے تھے، مگر ضد اور عناد کی وجہ سے تثلیث اور مردہ پرستی پر ڈٹے ہوئے تھے۔ کچھ ایسے بھی تھے جو کسی موقع پر ایمان لانے کا ارادہ رکھتے تھے، البتہ ان کے اکثر شرک کی قباحت جانتے ہی نہ تھے، بلکہ اپنے آبا و اجداد کی تقلید میں شرک کی راہ پر چلے جاتے تھے، اکثریت کا حال یہی رہا ہے۔