سورة النحل - آیت 68

وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور تیرے رب نے شہد کی مکھی کو وحی بھیجی کہ پہاڑوں اور درختوں میں اور بیلوں کی ٹیٹوں میں گھر بنا (ف ١) ۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ : وحی کا اصل معنی تو اشارۂ سریعہ ہے، یعنی خفیہ طریقے سے بات سمجھا دینا، جو دوسرا نہ سمجھے۔ یہاں مراد الہام ہے، یعنی دل میں ڈال دینا۔ شہد کی مکھی اللہ تعالیٰ کا خاص عطیہ ہے، اس لیے عرب زبان میں اس کا نام ہی ’’ النَّحْلِ ‘‘ رکھا گیا، جو ’’نَحَلَ يَنْحَلُ‘‘ (ف) کا مصدر بمعنی اسم مفعول ہے، اس کا معنی عطیہ ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةً ﴾ [ النساء : ۴ ] ’’اور عورتوں کو ان کے مہر بطور عطیہ (خوش دلی سے) دو۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے انسان بلکہ ہر مخلوق کی طبیعت اور فطرت میں اس کے فائدے اور نقصان کی پہچان رکھ دی ہے ۔ یہی وہ فطری رہنمائی ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۂ شمس میں فرمایا : ﴿ وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا (7) فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا ﴾ [الشمس : ۷، ۸ ] ’’اور نفس کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے ٹھیک بنایا! پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیز گاری (کی پہچان) اس کے دل میں ڈال دی۔‘‘ البتہ انسان اور دوسری مخلوق کا فرق یہ ہے کہ دوسرے سب فطری ہدایت کے پابند رہتے ہیں، مثلاً جانوروں کو دیکھ لیں، جب ان کا پیٹ بھر جائے تو مجال نہیں کہ ایک لقمہ بھی کھائیں۔ گدھا جسے سب سے کند ذہن سمجھا جاتا ہے، اللہ کی فطری ہدایت کے تحت بچے کو بھی سوار کر لیتا ہے اور پانی کا نالہ آنے پر ٹھہر کر اندازہ کرتا ہے، اگر پار کر سکتا ہو تو چھلانگ لگائے گا ورنہ نہیں۔ یہ انسان ہی ہے جو فطرت کی ہدایت کو جب چاہتا ہے عمل میں لاتا ہے، نہیں چاہتا تو عمل میں نہیں لاتا، کئی دفعہ اتنا کھا جاتا ہے کہ بدہضمی یا ہیضے کا شکار ہو جاتا ہے۔ اَنِ اتَّخِذِيْ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا....: ’’ يَعْرِشُوْنَ ‘‘ چھپر بنانے سے مراد گھروں کے باہر یا کھیتوں میں بیٹھنے کے لیے سائے والے چھپر بھی ہیں اور بانسوں اور سرکنڈوں وغیرہ کے وہ کھلے چھپر بھی جو انگوروں کی بیلیں چڑھانے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ’’مِنْ‘‘ تینوں جگہ تبعیض کے لیے ہے، یعنی ہر پہاڑ، درخت اور چھپر گھر بنانے کے قابل نہیں، ان میں سے مناسب جگہوں کا انتخاب کرو۔ اس کے بعد کھانے پر کوئی پابندی نہیں، ہر پھل میں سے کھاؤ، یعنی ’’ ثُمَّ كُلِيْ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ ‘‘ یہ امر اباحت کے لیے ہے، وجوب کے لیے نہیں کہ ضرور ہی ہر پھل میں سے کھاؤ۔ مطلب یہ ہے کہ جو چاہو کھاؤ، جیسے کہتے ہیں حرام چھوڑ کر ہر چیز کھاؤ، یعنی تمھیں اجازت ہے۔ اس حکم کی تعمیل مشاہدے میں بھی آئی ہے کہ مکھیاں پہلے اپنا چھتا بناتی ہیں، پھر خوراک کے لیے نکلتی ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی فطرت میں اس کے نفع نقصان کی سمجھ رکھ دی ہے، جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : ﴿ رَبُّنَا الَّذِيْ اَعْطٰى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى ﴾ [ طٰہٰ : ۵۰ ] ’’ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی، پھر راستہ دکھایا۔‘‘ مگر شہد کی مکھی کا خاص طور پر الگ ذکر بھی فرمایا : ﴿ وَ اَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ ﴾ ’’اور تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی فرمائی۔‘‘ اس لیے اہل علم نے اس کے گھر بنانے، اس کے نظام زندگی اور شہد بنانے کے عمل پر بہت تحقیق کرکے مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ یہ چھوٹا سا جانور باقاعدہ ایک منظم حکومت کے تحت رہتا ہے۔ پورے چھتے کی ایک ہی ملکہ ہوتی ہے، جس کے حکم اور تقسیم کار کے مطابق تمام مکھیاں عمل کرتی ہیں۔ یہ ملکہ دوسری مکھیوں سے قدو قامت اور وضع قطع میں ممتاز ہوتی ہے۔ مکھیاں اس کے لیے خاص غذا مہیا کرتی ہیں، جسے ’’غذاء الملکہ‘‘ کہتے ہیں، جو نہایت مقوی ہوتی ہے۔ یہ ملکہ تین ہفتوں میں چھ ہزار سے بارہ ہزار تک انڈے دیتی ہے۔ اس کے حکم اور فرائض کی تقسیم کے مطابق تمام مکھیاں الگ الگ کام سرانجام دیتی ہیں۔ کچھ دربان ہوتی ہیں جو کسی اجنبی کو اندر نہیں آنے دیتیں، کچھ انڈوں کی حفاظت کرتی ہیں، کچھ نئے نکلنے والے بچوں کی تربیت کرتی ہیں، کچھ موم کے ساتھ چھتا بنانے کے لیے معماری کا کام کرتی ہیں، کچھ وہ ہیں جو انھیں موم پہنچاتی ہیں۔ بعض سپاہی ہوتی ہیں، جن کا کام چھتے کی حفاظت اور دشمن کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے، کچھ پھولوں اور پھلوں سے رس چوستی ہیں جو ان کے پیٹوں کے کارخانے میں شہد بنتا ہے، وہ مکھیوں اور ان کے بچوں کے لیے خوراک اور انسان کے لیے غذا و دوا بنتا ہے، جب کہ موم انسان کی متعدد ضروریات، مثلاً روشنی، علاج وغیرہ کے کام آتا ہے۔ ان کا چھتا بھی قدرت کی کاریگری کا عجیب نمونہ ہے، ہر خانہ مسدس (چھ ضلعوں والا) ہوتا ہے جو مکھی کے جسم کے عین مطابق (گول اور لمبا) ہوتا ہے اور ہر ضلع ایسا برابر کہ پرکار اور مسطر سے بھی کوئی فرق نہیں نکلے گا۔ مسدس بنانے میں یہ حکمت ہے کہ گول یا مربع یا کسی بھی اور شکل کا ہوتا تو یا گھر کے اندر مکھی کے جسم سے زائد جگہ بچ جاتی یا گھروں کے باہر درمیان میں جگہ بچ جاتی۔ یہ مکھیاں صفائی کا نہایت اہتمام رکھتی ہیں، اپنے فضلے کے لیے الگ جگہ مقرر رکھتی ہیں۔ چھتے سے فضلہ ساتھ ہی ساتھ باہر نکالتی رہتی ہیں۔ ہمیشہ صاف پانی پیتی ہیں۔ کوئی گندگی سے آلودہ مکھی آ جائے تو دربان اندر نہیں جانے دیتے، بلکہ انھیں مار دیا جاتا ہے۔ بے کار مکھیوں کو بھی قتل کر دیا جاتا ہے، اگر کوئی مکھی مر جائے تو فوراً اسے باہر پھینک دیا جاتا ہے۔ گرمی کی شدت سے شہد گرنے کاخطرہ ہو تو پروں سے ہوا دے کر اسے ٹھنڈا رکھتی ہیں۔ ملکہ مکھی کے علاوہ کوئی اور ملکہ ظاہر ہو تو اسے قتل کر دیا جاتا ہے، تاکہ نظام میں خرابی پیدا نہ ہو۔ جیسا کہ ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے دعوے دار کو قتل کرنے کا حکم ہے۔ [ دیکھیے مسلم، الأمارۃ، باب حکم من فرق أمر المسلمین....: ۶۰ ؍۱۸۵۲ ] غرض ایک عجیب منظم سلطنت ہے جو انسان کے فائدے کی خاطر مصروف عمل ہے۔ فَاسْلُكِيْ سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا : ’’ ذُلُلًا ‘‘ ’’ذَلُوْلٌ‘‘ کی جمع ہے، جس کا معنی مطیع اور مسخر ہے اور یہ ’’ سُبُلَ ‘‘ سے حال ہے، یعنی گھر بنانے کے بعد شہد بنانے والی مکھیاں دن کو نکلتی ہیں اور بعض اوقات پھولوں اور پھلوں کی تلاش میں بہت دور نکل جاتی ہیں، پھر پیٹ میں پھلوں کا رس اور پاؤں میں موم کا مادہ لے کر دن بھر میں کئی چکر اپنے گھر کی طرف لگاتی ہیں۔ رات کو دوبارہ اپنے چھتے میں واپس آ جاتی ہیں۔ اتنی دور سے ٹھیک اسی جگہ واپس آنا ممکن نہ تھا، مگر یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ اس نے کھیتوں، شہروں، صحراؤں اور پہاڑوں کے دور دراز اور بے نشان راستے اس کے لیے ایسے آسان اور مسخر کر دیے ہیں کہ وہ انھی پر واپس پلٹ کر عین اپنے چھتے میں پہنچ جاتی ہے، کبھی دوسرے چھتے میں نہیں جاتی۔ ’’ فَاسْلُكِيْ سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ‘‘ کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ تیرے رب نے شہد بنانے کے لیے جو جو مرحلے اور طریقے رکھے ہیں، وہ سب تیری دسترس میں کر دیے ہیں، سو تو ان پر چلتے ہوئے شہد تیار کر۔ يَخْرُجُ مِنْۢ بُطُوْنِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ : ’’ شَرَابٌ ‘‘ یعنی مشروب، اس سے معلوم ہوا کہ شہد اصل میں پینے کی چیزہے، خالص پی لو یا دودھ یا پانی وغیرہ ملا کر۔ پھلوں، پھولوں، موسم اور علاقے کے لحاظ سے شہد مختلف رنگوں، ذائقوں اور خاصیتوں کا حامل ہوتا ہے، جبکہ دودھ سفید ہی ہوتا ہے، یہ بھی پروردگار کی کاریگری ہے۔ فِيْهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ : اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت ہے کہ ایک زہریلے کیڑے کے پیٹ میں تیار ہونے والے مشروب میں لوگوں کے لیے شفا رکھ دی ہے۔ یہاں ’’ شِفَآءٌ ‘‘ نکرہ ہے جو اثبات کے تحت آیا ہے، اس لیے اس کا ہر مرض کے لیے شفا ہونا تو واضح نہیں ہوتا۔ اسی طرح ’’ لِلنَّاسِ ‘‘ کا الف لام بھی جنس یا استغراق کے لیے مانیں تو سب لوگوں کے لیے شفا مراد ہو گی، عہد کے لیے مانیں تو پھر انھی کے لیے شفا ہو گی جن کا علاج شہد سے ہو سکتا ہے۔ ’’ شِفَآءٌ ‘‘ میں تنوین کا ترجمہ بڑی شفا بھی ہو سکتا ہے۔ بہرحال شہد چونکہ بے شمار پھولوں اور پھلوں کا خلاصہ ہے، جن میں سے ہر ایک کسی نہ کسی بیماری کا علاج ہے، اس لیے شہد میں ہر بیماری کا علاج ہونا کچھ بعید نہیں۔ جس طرح اب کئی ہو میو اور دوسرے ڈاکٹر ایک ہی وقت میں بہت سی دواؤں کا مجموعہ دے دیتے ہیں کہ کوئی دوا تو بیماری کے مطابق ہو گی۔ غرض شہد اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے، اس میں لذت بھی ہے اور شفا بھی۔ شہد میں ایک خوبی یہ ہے کہ وہ نمی کو جذب کرتا ہے اور اس میں جراثیم زندہ نہیں رہ سکتے، اس لیے زخم اور پھوڑے پر لگانے سے وہ درست ہو جاتا ہے۔ آنکھوں اور پیٹ کی بیماریوں کا علاج ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسہال (دستوں) کے مریض کو بار بار شہد پلانے اور آخر کار اس کے تندرست ہونے کی حدیث صحیح بخاری (۵۷۱۶) میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس آیت اوراحادیث سے معلوم یہی ہوتا ہے کہ شہد ہر بیماری کا علاج ہے، مگر ہر بیماری کے لیے اس کی مقدارِ خوراک اور طریقِ استعمال تجربے اور تحقیق ہی سے طے ہو سکتے ہیں جو اطباء کا کام اور ان کی ذمہ داری ہے، مگر افسوس کہ اس پر مسلمان اطباء نے اتنی محنت نہیں کی کہ اس خزانے سے کما حقہ فائدہ اٹھا سکتے، البتہ اس کی ایک خاصیت سے تمام مسلم اطباء شروع سے فائدہ اٹھاتے آئے ہیں، وہ یہ کہ اس میں رکھی ہوئی چیز محفوظ ہو جاتی ہے، خراب نہیں ہوتی، اس لیے وہ تمام معجونیں، خمیرے اور جوارشیں محفوظ رکھنے کے لیے سیکڑوں برس سے شہد میں بناتے آ رہے ہیں، جس سے وہ دواؤں کو محفوظ رکھنے کے لیے الکحل جیسی حرام چیز کے محتاج نہیں ہوئے۔ (والحمد للہ) اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ....: شہد کی مکھی کے احوال سے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیت کا علم غورو فکر کرنے والوں ہی کو نصیب ہوتا ہے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’تین پتے بتائے برے میں سے بھلا نکلنے کے : (1) جانور کے پیٹ سے دودھ۔ (2) نشے کے انگور اور کھجور سے روزی پاک۔ (3) اور مکھی کے پیٹ سے شہد۔ یعنی اس قرآن سے جاہلوں کی اولاد عالم نکلے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں یوں ہی ہوا، کافروں کی اولاد کامل ہوئی۔‘‘ (موضح)