وَيَجْعَلُونَ لِمَا لَا يَعْلَمُونَ نَصِيبًا مِّمَّا رَزَقْنَاهُمْ ۗ تَاللَّهِ لَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنتُمْ تَفْتَرُونَ
اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ان کے لئے جنہیں نہیں جانتے حصہ تجویز کرتے ہیں ، اللہ کی قسم جو تم جھوٹ باندھتے تھے اس کی بابت تم سے ضرور پوچھا جائے گا ۔
وَ يَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا يَعْلَمُوْنَ ....:’’ لَا يَعْلَمُوْنَ ‘‘ کے دو معنی ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی مراد ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ مشرک لوگ ہمارے دیے ہوئے رزق کا حصہ ان خداؤں کے لیے مقرر کر دیتے ہیں جو کچھ بھی نہیں جانتے، کیونکہ عالم الغیب والشہادہ تو صرف اللہ ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ ان کے لیے مقرر کر دیتے ہیں جن کے متعلق یہ کچھ نہیں جانتے۔ نہ انھیں ان کی حقیقت معلوم ہے نہ ان کا بے اختیار ہونا، محض گمان اور سنی سنائی باتوں پر بنیاد رکھ کر ہمارا دیا ہوا ان کے نام کر دیتے ہیں۔ دیکھیے سورۂ انعام (۳۶ تا ۳۸) اور سورۂ یونس (۶۶) شروع آیت میں ان مشرکین کا ذکر سارے کا سارا غائب کے صیغوں کے ساتھ کرنے کے بعد آخر میں (بطورِ التفات) انھیں براہِ راست ڈانٹنے کے لیے مخاطب کر لیا اور قسم کھا کر فرمایا کہ مجھے اپنی قسم کہ تم جو کچھ طوفان باندھتے رہے ہو ہر صورت اس کے متعلق پوچھے جاؤ گے۔