يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ۩
اپنے اوپر سے اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں اور جو حکم پاتے ہیں سو ہی کرتے ہیں
1۔ يَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ....: ’’ مِنْ فَوْقِهِمْ ‘‘ ’’رَبَّهُمْ ‘‘ سے حال ہے، یعنی وہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں، اس حال میں کہ وہ ان کے اوپر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے اور تمام اہل السنہ کا اس پر اتفاق ہے۔ یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے، درست نہیں، کیونکہ یہ ’’ اَلرَّ حْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰي ‘‘ کے خلاف ہے۔ ہاں، یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن و حدیث کی رو سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے، مگر کس طرح ہے، یہ معلوم نہیں، نہ صحابہ میں سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی کیفیت پوچھی، اس لیے امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا معلوم ہے، اس کی کیفیت معلوم نہیں، اس لیے اس کی کیفیت کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔‘‘ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہ اوپر ہے نہ نیچے، نہ دائیں نہ بائیں، نہ آگے نہ پیچھے، بلکہ وہ لا مکان ہے، یعنی کسی جگہ بھی نہیں، کیونکہ عرش اور مکان تو اس کی مخلوق ہے، اگر اسے عرش پر یا کسی مکان میں مانیں تو وہ اپنی مخلوق کا محتاج ٹھہرے گا۔ اللہ تعالیٰ کے اوپر کی جانب ہونے یا عرش پر ہونے کے منکرین میں سے بعض لوگ تو یہاں تک بڑھ گئے کہ انھوں نے کہا یہ کہنا ہی جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے، ان کی بات قرآن کی ان متعدد آیات جن میں اللہ تعالیٰ کا عرش پر ہونا یا اوپر کی جانب ہونا بیان ہوا ہے، کے صریح خلاف ہے۔ ان کی بات کا نتیجہ تو یہی ہے کہ درحقیقت اللہ تعالیٰ موجود ہی نہیں۔ رہی یہ بات کہ اس سے اللہ کا عرش یا مکان کا محتاج ہونا لازم آتا ہے تو یہ بات فضول ہے، کیونکہ بہت سی نیچے والی چیزیں اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے اوپر والی چیز کی محتاج ہوتی ہیں، مثلاً چھت کے نیچے پنکھا یا بلب وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ کی مثل تو کوئی چیز نہیں، سو عرش اور مکان اللہ تعالیٰ کے مخلوق ہو کر بھی اپنی پیدائش اور وجود میں اللہ کے محتاج ہیں، اللہ تعالیٰ کسی کا محتاج نہیں، کیونکہ وہ ان کے پیدا کرنے سے پہلے بھی ہمیشہ سے موجود ہے۔ ہاں، اس کی کوئی صفت یا اس کی ذات کسی مخلوق کی صفت یا ذات کی مثل نہیں۔ جن لوگوں نے اس سوال پر کہ ’’اللہ کہاں ہے‘‘ ناجائز ہونے کا فتویٰ لگایا وہ سوچ لیں کہ ان کا فتویٰ کس کس ہستی پر لگتا ہے۔ صحیح مسلم میں معاویہ بن حکم السلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں : (( كَانَتْ لِيْ جَارِيَةٌ تَرْعَی غَنَمًا لِيْ قِبَلَ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِيَّةِ، فَاطَّلَعْتُ ذَاتَ يَوْمٍ فَإِذَا الذِّئْبُ قَدْ ذَهَبَ بِشَاةٍ عَنْ غَنَمِهَا، وَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِيْ آدَمَ، آسَفُ كَمَا يَأْسَفُوْنَ، لٰكِنِّيْ صَكَكْتُهَا صَكَّةً، فَأَتَيْتُ رَسُوْلَ اللّٰه صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَظَّمَ ذٰلِكَ عَلَيَّ، قُلْتُ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ ! أَفَلاَ أُعْتِقُهَا ؟ قَالَ ائْتِنِيْ بِهَا، فَأَتَيْتُهُ بِهَا، فَقَالَ لَهَا أَيْنَ اللّٰهُ ؟ قَالَتْ فِي السَّمَاءِ قَالَ مَنْ أَنَا؟ قَالَتْ أَنْتَ رَسُوْلُ اللّٰهِ ، قَالَ أَعْتِقْهَا، فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ )) [ مسلم، المساجد، باب تحریم الکلام فی الصلاۃ....: ۵۳۷ ] ’’میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ (پہاڑ) کی طرف میری بھیڑ بکریاں چرایا کرتی تھی۔ میں نے ایک دن دیکھا کہ بھیڑیا اس کی بھیڑوں میں سے ایک بھیڑ لے گیا تھا، میں بنی آدم ہی میں سے ایک آدمی ہوں، مجھے اسی طرح غصہ آتا ہے جیسے انھیں غصہ آتا ہے، لیکن میں نے اسے (بس) ایک تھپڑ مارا، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے اسے مجھ پر بہت بڑا (گناہ) قرار دیا۔ میں نے کہا : ’’یا رسول اللہ! کیا میں اسے آزاد نہ کر دوں؟‘‘ فرمایا : ’’اسے میرے پاس لے کر آؤ۔‘‘ میں اسے آپ کے پاس لے کر آیا، آپ نے اس سے فرمایا : ’’اللہ کہاں ہے؟‘‘ اس نے کہا : ’’آسمان میں۔‘‘ آپ نے فرمایا : ’’میں کون ہوں؟‘‘ اس نے کہا : ’’آپ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اسے آزاد کر دو، یہ مومنہ ہے۔‘‘ اس صحیح حدیث کے مطابق یہ سوال کرنے والے کہ ’’اللہ کہاں ہے‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اس لونڈی کو مومنہ قرار دے رہے ہیں، جس کا جواب یہ ہے کہ آسمان پر ہے۔ اب اس سوال کو ناجائز کہنے والے اور اللہ تعالیٰ کو لا مکان کہنے والے سوچ لیں کہ ان کا فتویٰ کس کس پر لگتا ہے اور اگر وہ اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی سمجھتے ہیں تو فوراً ان غلط عقائد سے توبہ کریں۔ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہیں۔ اہل علم نے اللہ تعالیٰ کے لیے اوپر کی جانب ہونے کے ثبوت کے لیے قرآن و حدیث کے دلائل پر مشتمل کئی کتابیں لکھی ہیں۔ دیکھیے حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی کتاب ’’اَلْعُلُوُّ لِلْعَلِيِّ الْغَفَّارِ‘‘ اور ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب ’’اَلْجُيُوْشُ الْإِسْلاَمِيَّةُ ‘‘ ، اسی طرح مشہور مسلم فلسفی ابن رشد نے ’’ مَنَاهِجُ الدَّوْلَةِ ‘‘ میں اس موضوع پر بہت لمبی تفصیل لکھی ہے۔ 2۔ ربیعہ بن عبد اللہ بن ہدیر کہتے ہیں کہ وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ خطبہ جمعہ میں حاضر تھے۔ انھوں نے منبر پر سورۃ النحل پڑھی، سجدے کا مقام آیا تو اترے اور سجدہ کیا، لوگوں نے بھی سجدہ کیا، یہاں تک کہ اگلا جمعہ آیا تو انھوں نے وہی سورت پڑھی، سجدے کا مقام آیا تو فرمایا : ’’لوگو! ہم سجدے کی آیت پڑھتے ہیں تو جس نے سجدہ کیا اس نے درست کیا اور جس نے سجدہ نہیں کیا اس پر کوئی گناہ نہیں‘‘ اور عمر رضی اللہ عنہ نے سجدہ نہیں کیا۔ [ بخاری، سجود القرآن، باب من رأی أن اللّٰہ عز و جل لم یوجب السجود : ۱۰۷۷ ] اس سے معلوم ہوا کہ سجدہ والی آیت پر سجدہ کریں تو ثواب ہے، مگر یہ ضروری اور فرض نہیں۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ سجدہ نہ کرنے سے سجدہ کرنے کا ثواب حاصل نہ ہو گا۔