أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَىٰ مَا خَلَقَ اللَّهُ مِن شَيْءٍ يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِّلَّهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ
کیا انہوں نے نہ دیکھا کہ جو شئے اللہ نے پیدا کی ، ان کے سائے داہنے اور بائیں سے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے ڈھلتے ہیں اور وہ عاجزی کرتے ہیں (ف ١) ۔
1۔ اَوَ لَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ....: ’’ يَّتَفَيَّؤُا ‘‘ ’’فَاءَ يَفِيْءُ فَيْئًا‘‘ (لوٹنا) سے باب تفعل ہے۔ سایوں کے لوٹنے سے مراد سورج نکلنے کے بعد ایک جگہ سے دوسری جگہ حتیٰ کہ زوال کے بعد بالکل ہی دوسری طرف منتقل ہونا ہے۔ ’’دٰخِرُوْنَ‘‘ ’’دَخِرَ يَدْخَرُ دُخُوْرًا ‘‘ (ع) سے ہے، ’’دَخِرَ فُلَانٌ لِفُلَانٍ ‘‘ فلاں شخص دوسرے کا بالکل مطیع اور اس کے سامنے عاجز اور ذلیل ہو گیا۔’’ اَوَ لَمْ يَرَوْا ‘‘ میں استفہام پوچھنے کے لیے نہیں بلکہ ڈانٹنے کے لیے ہے کہ کیا ان مشرکوں کو نظر نہیں آتا، یقیناً یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کے سامنے سجدہ ریز اور عاجز و مطیع ہے، مگر یہ اللہ کے دیے ہوئے اختیار کو اس کی ساری مخلوق کی طرح عاجزی، اطاعت اور عبادت کے بجائے سرکشی اور کفر و شرک میں استعمال کر رہے ہیں۔ 2۔ اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ....: یعنی دنیا کی کوئی بھی چیز جو اللہ نے پیدا فرمائی ہے، مثلاً پہاڑ، درخت اور انسان وغیرہ، جس کا سایہ بڑھتا، گھٹتا اور ڈھلتا ہے، ہر ایک تکوینی طور پر (اپنے اختیار کے بغیر) اللہ تعالیٰ ہی کی فرماں برداری میں مصروف ہے اور وہ قانون قدرت سے بال برابر ادھر ادھر نہیں ہو سکتی۔ یہاں تمام چیزوں پر ذوی العقول کو غلبہ دے کر ’’ دٰخِرُوْنَ ‘‘ فرمایا ہے۔ (روح المعانی) شاہ عبد القادر رحمہ اللہ اس سجدہ کی کیفیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ہر چیز ٹھیک دوپہر میں کھڑی ہے، اس کا سایہ بھی کھڑا ہے، جب دن ڈھلا، سایہ بھی جھکا، پھر جھکتے جھکتے شام تک زمین پر پڑ گیا، جیسے نماز میں قیام سے رکوع اور رکوع سے سجدہ، اسی طرح ہر چیز اپنے سائے سے نماز ادا کرتی ہے۔‘‘ (موضح) ’’ الْيَمِيْنِ ‘‘ کو اختصار کے لیے واحد اور ’’ الشَّمَآىِٕلِ ‘‘ کو تفصیل کے لیے جمع لائے۔ پہلے سے مراد جنس ہے، اس میں بھی تمام افراد شامل ہیں، دوسرے سے مراد بائیں جانب کے تمام اطراف ہیں۔