بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ ۗ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
انہیں ہم نے دلائل اور کتابوں کے ساتھ بھیجا اور ہم نے تیری طرف ذکر (قرآن) اتارا ، تاکہ تو لوگوں کے لئے جو ان کی طرف نازل ہوا ہے بیان کرے اور تاکہ وہ فکر کریں ۔
1۔ بِالْبَيِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ : ’’ الزُّبُرِ ‘‘ ’’ اَلزَّبُوْرُ‘‘ کی جمع ہے، بمعنی ’’مَزْبُوْرٌ‘‘ یعنی مکتوب۔ ’’ بِالْبَيِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ ‘‘ یہ جار مجرور گزشتہ آیت کے دو افعال میں سے کسی ایک کے متعلق ہو سکتا ہے، یا تو ’’ وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا ‘‘ میں ’’ اَرْسَلْنَا ‘‘ کے متعلق، یعنی ہم نے آپ سے پہلے نہیں بھیجے مگر مرد واضح دلائل اور کتابیں دے کر، یا ’’ فَسْـَٔلُوْا اَهْلَ الذِّكْرِ ‘‘ میں ’’فَسْـَٔلُوْا ‘‘ کے متعلق، یعنی اگر تم نہیں جانتے تو ذکر والوں سے واضح دلائل اور کتابوں کے ساتھ پوچھ لو۔ (طنطاوی) 2۔ وَ اَنْزَلْنَا اِلَيْكَ الذِّكْرَ....: ’’ الذِّكْرَ ‘‘ کی تفسیر کے لیے اسی سورۂ حجر کی آیت (۹) کے حواشی ملاحظہ فرمائیں۔ 3۔ اس آیت میں ’’ الذِّكْرَ ‘‘ یعنی وحی الٰہی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کرنے کی دو حکمتیں بیان فرمائیں، ایک تو یہ کہ لوگوں کو اس کا مطلب سمجھنے میں کوئی مشکل پیش آنے پر آپ ان کے لیے اس کی وضاحت فرما دیں، بلکہ خود اس پر عمل کرکے انھیں اس کی عملی تصویر دکھا دیں، کیونکہ آپ کی وضاحت اور نمونے کے بغیر وحی الٰہی میں بیان کردہ چیزوں کو سمجھنا ممکن ہی نہیں، مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ اور دیگر احکام۔ قرآن مجید کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول، فعل اور حال وحی الٰہی اور اس کی وضاحت ہی ہے، فرمایا : ﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ﴾ [ الأحزاب : ۲۱ ] ’’بلاشبہ یقیناً تمھارے لیے اللہ کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے۔‘‘مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلَا، إِنِّيْ أُوْتِيْتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، أَلَا يُوْشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلٰی أَرِيْكَتِهِ يَقُوْلُ عَلَيْكُمْ بِهٰذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُمْ فِيْهِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوْهُ وَمَا وَجَدْتُمْ فِيْهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوْهُ أَلاَ وَ إِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلُ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ، أَلاَ، لَا يَحِلُّ لَكُمْ الْحِمَارُ الْأَهْلِيُّ وَلَا كُلُّ ذِيْ نَابٍ مِنَ السَّبُعِ وَلَا لُقَطَةُ مُعَاهِدٍ إِلاَّ أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا صَاحِبُهَا )) [ أبوداؤد، السنۃ، باب فی لزوم السنۃ : ۴۶۰۴۔ ابن ماجہ : ۱۲، و صححہ الألباني ] ’’سنو! مجھے کتاب اور اس کے ساتھ اس کی مثل دی گئی ہے، یاد رکھو! قریب ہے کہ ایک پیٹ بھرا ہوا آدمی اپنی شاندار چارپائی پر بیٹھا ہوا یہ کہے کہ اس قرآن کو لازم پکڑو، جو اس میں حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جو اس میں حرام پاؤ اسے حرام سمجھو۔ سن لو! بے شک جو کچھ اللہ کے رسول نے حرام کیا ہے وہ اسی طرح ہے جیسے اللہ نے حرام کیا ہے۔ یاد رکھو! تمھارے لیے گھریلو گدھے کا گوشت حلال نہیں اور نہ درندوں میں سے کوئی کچلی والا اور نہ کسی ذمی (کافر) کی گری ہوئی چیز، الا یہ کہ اس کے مالک کو اس کی ضرورت نہ رہے۔‘‘ دوسری حکمت ’’ وَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ ‘‘ اور تاکہ لوگ وحی الٰہی میں غور و فکر کریں اور اس سے نصیحت حاصل کریں۔