هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ أَمْرُ رَبِّكَ ۚ كَذَٰلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
کافر کس انتظار میں ہیں ، کیا اسی بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ انکے پاس فرشتے آئیں یا تیرے رب کا حکم (عذاب) آپہنچے ، ایسے ہی ان کے اگلوں نے کیا اور اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ اپنی جانوں پر آپ ظلم کرتے تھے ، (ف ١) ۔
1۔ هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا اَنْ تَاْتِيَهُمُ....: یہاں استفہام انکار کے لیے ہے اور ’’ يَنْظُرُوْنَ ‘‘ بمعنی ’’يَنْتَظِرُوْنَ‘‘ ہے۔ اس میں پھر کفار کا حال بیان کیا ہے کہ ہر قسم کی دلیل واضح ہونے کے بعد ان کے ایمان نہ لانے کا مقصد اس کے سوا کیا ہے کہ وہ اس انتظار میں ہیں کہ فرشتے ان کی روح قبض کرنے کے لیے آ جائیں، یا تیرے رب کا حکم، یعنی عذاب، یا قیامت آجائے، تب وہ ایمان لا کر اپنی حالت درست کریں گے، حالانکہ اس وقت توبہ کرنا یا ایمان لانا انھیں کچھ فائدہ نہیں دے گا۔ اس سے مراد ان کی ہٹ دھرمی بیان کرنا ہے، یہ نہیں کہ واقعی وہ انتظار کر رہے ہیں۔ ’’ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَوْ يَاْتِيَ اَمْرُ رَبِّكَ ‘‘ میں ’’اَوْ ‘‘ مانعۃ الخلو ہے، یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ دونوں چیزیں نہ آئیں، البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے ایک آ جائے اور یہ بھی کہ دونوں اکٹھی آ جائیں۔ 2۔ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ: یعنی پہلے لوگوں نے بھی کفر کی روش اختیار کی اور نبیوں کو جھٹلایا۔ (شوکانی) 3۔ وَ مَا ظَلَمَهُمُ اللّٰهُ....: یعنی وہ خود ایسے برے عمل کرتے تھے جن کی سزا جہنم تھی اور یہ احمقانہ ظلم ہے، کیونکہ وہ اپنے فائدے کے لیے کسی دوسرے پر ظلم کرتے تو شاید انھیں کچھ فائدہ ہوتا، خواہ عارضی ہی سہی، مگر اپنے آپ پر ظلم تو حماقت کی انتہا ہے۔