وَقِيلَ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا مَاذَا أَنزَلَ رَبُّكُمْ ۚ قَالُوا خَيْرًا ۗ لِّلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۚ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ ۚ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ
اور پرہیزگاروں سے کہا گیا کہ تمہارے رب نے (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر) کیا نازل کیا ہے بولے نیک بات ، جنہوں نے اس دنیا میں بھلائی کی ، ان کے لئے بھلائی ہے اور آخرت کا گھر اچھا ہے اور متقیوں کا گھر کیا خوب ہے ۔
1۔ وَ قِيْلَ لِلَّذِيْنَ اتَّقَوْا....: ’’ خَيْرًا ‘‘ ’’خَيْرٌ ‘‘ اور ’’شَرٌّ‘‘ اصل میں اسم تفضیل کے صیغے ہیں، یعنی ’’ أَخْيَرُ‘‘ اور ”اَشَرّ‘‘ ، تخفیف کے لیے ’’خَيْرٌ‘‘ اور ’’شَرٌّ‘‘ بنا دیا گیا، اس لیے ترجمہ کیا ہے ’’بہترین بات‘‘ یعنی سب سے اچھی بات۔ یہاں زمخشری نے ایک نکتہ بیان کیا ہے کہ یہی سوال اس سورت کی آیت (۲۴) میں کفار سے کیا گیا تو ان کا جواب تھا ’’ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ ‘‘ جو مرفوع ہے اور یہاں متقین سے یہی سوال ہوا تو انھوں نے کہا ’’ خَيْرًا ‘‘ جو منصوب ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ ‘‘ مبتدا ’’هِيَ‘‘ کی خبر ہے، اس لیے مرفوع ہے، یعنی کفار نے مانا ہی نہیں کہ رب تعالیٰ نے کچھ نازل فرمایا، ورنہ ’’ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ ‘‘ منصوب ہوتا، اس کے برعکس متقین کا قول ’’خَيْرًا ‘‘ ’’أَنْزَلَ‘‘ مقدر کا مفعول ہے، یعنی اسی نے خیر نازل فرمائی ہے۔ گویا متقین نے وحی الٰہی کا نزول بھی تسلیم کیا اور اس کے بہترین ہونے کی شہادت بھی دی۔ اس کے برعکس کافروں نے دونوں باتوں کا انکار کیا۔ 2۔ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ : ’’ حَسَنَةٌ ‘‘ کی تنوین تعظیم کے لیے ہے۔ مومن کو دنیا کی زندگی میں بھی وہ سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے جو کافر کے خواب و خیال میں بھی نہیں آ سکتا۔ صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ لَهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذٰلِكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَّهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَّهُ )) [ مسلم، الزھد، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر : ۲۹۹۹ ]’’مومن کا معاملہ عجیب ہے، کیونکہ اس کا ہر کام ہی بہترین ہے اور یہ مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں، اگر اسے خوشی حاصل ہوتی ہے تو شکر کرتا ہے، تو وہ اس کے لیے بہترین ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے تو وہ بھی اس کے لیے بہترین ہوتا ہے۔‘‘ قرآن مجید میں مومن سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ حیات طیبہ عطا کرنے کا ہے۔ دیکھیے سورۂ نحل (۹۷)۔ 3۔ وَ لَدَارُ الْاٰخِرَةِ خَيْرٌ....: اس میں ’’دَارٌ‘‘ موصوف اپنی صفت ’’ الْاٰخِرَةِ ‘‘ کی طرف مضاف ہے۔ آخری گھر اس لیے فرمایا کہ اس کے بعد اور کوئی گھر نہیں، ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہنا ہے۔ ’’وَ لَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِيْنَ ‘‘ ’’نِعْمَ‘‘ فعل ماضی ہے، یہ مدح کے لیے ہے، مخصوص بالمدح ’’هِيَ‘‘ ہے، اس کی ضد ’’بِئْسَ‘‘ ہے جو مذمت کے لیے ہے۔ لام تاکید کا معنی ’’تو‘‘ کے ساتھ اور ’’خَيْرٌ ‘‘ کا معنی تفضیل کی وجہ سے ’’کہیں بہتر‘‘ کے ساتھ کیا ہے۔