وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ وَالنُّجُومُ مُسَخَّرَاتٌ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
اور تمہارے لئے رات اور دن ، اور سورج اور چاند کو اس لئے مسخر کیا ، اور ستارے اس کے حکم کے تابع ہیں ، بےشک اہل عقل کے لئے اس میں نشانیاں ہیں ۔
1۔ وَ سَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَ النَّهَارَ....: تسخیر کا معنی کسی چیز کو اس کا اختیار اور مرضی ختم کرکے اپنا تابع بنا کر اپنی مرضی کے مطابق چلانا ہے۔ رات اور دن کے ساتھ سورج اور چاند کے تعلق کی بنا پر چاروں کا ذکر اکٹھا کیا۔ ’’ لَكُمْ‘‘ (تمھارے لیے) کا یہ مطلب نہیں کہ رات دن اور سورج چاند تمھارے تابع فرمان کر دیے ہیں، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے زبردست حکم ہی کے تابع ہیں، اس کے مقرر کر دہ نظام سے نہ بال برابر ادھر ادھر ہو سکتے ہیں نہ آنکھ جھپکنے کے برابر ادھر ادھر۔ (دیکھیے فاطر : ۴۱) ’’ لَكُمْ‘‘ کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو تمھاری بقا، ضروریات اور منافع کے لیے پابند کر رکھا ہے۔ اسے لام انتفاع کہتے ہیں ،اسی لیے ترجمہ ’’تمھاری خاطر‘‘ کیا گیا ہے۔ ’’ سَخَّرَ ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی مرضی یا اختیار استعمال ہی نہیں کر سکتے، صرف انسان کو آزمائش کے لیے کچھ اختیار دیا ہے، وہ بھی صحیح یا غلط راستہ اختیار کرنے کا ،باقی وہ بھی اللہ تعالیٰ کے زبردست حکم کے آگے بے بس ہے، زندگی اور موت پر، فقرو غنا پر، صحت و بیماری پر، الغرض بے شمار چیزیں ہیں جن پر انسان کا کچھ اختیار نہیں۔ باقی تمام مخلوق کو جو مکمل مسخر کر دیا اور ان کی مرضی بالکل ختم کر دی تو یہ ان سے پوچھ کر ہی کیا، اگر وہ بھی آزمائش قبول کر کے کچھ اختیار چاہتے تو انھیں مل جاتا، مگر انھوں نے جرأت ہی نہیں کی اور مکمل خود سپردگی اختیار کی، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا ﴾ [ الأحزاب : ۷۲ ] ’’بے شک ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اورپہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیااور اس سے ڈرگئے اورانسان نے اسے اٹھا لیا، بلاشبہ وہ ہمیشہ سے بہت ظالم، بہت جاہل ہے۔‘‘ اور انسان کے فائدے کی مثالوں کے لیے دیکھیے سورۂ نبا کی ابتدائی آیات اور سورۂ قصص (۷۱، ۷۲)۔ 2۔ وَ النُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمْرِهٖ....: ’’ وَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ ‘‘ یہ ’’ سَخَّرَ ‘‘ کے مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب تھے، ’’ النُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌ ‘‘ کو مرفوع اور مبتدا و خبر کی صورت میں الگ فرمایا، کیونکہ سیاروں کا معاملہ سورج چاند سے بھی بے حد وسیع ہے۔ انسان کو اب تک جو کچھ معلوم ہوا ہے اس کے مطابق ایک ایک سیارہ اتنا عظیم ہے کہ سورج چاند اس کے مقابلے میں کچھ حیثیت ہی نہیں رکھتے اور ایسی بے شمار کہکشائیں ہیں جن کا ہر سیارہ ہمارے سورج سے بھی بڑا ہے اور ہم سے اتنے دور ہیں کہ لاکھوں نوری سالوں میں بعض کی روشنی اب زمین تک پہنچی ہے اور بعض کی اب بھی نہیں، حالانکہ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہے۔ ہمیں تو ان کے یہی فوائد معلوم ہیں کہ یہ رات کی تاریکی میں چراغ، آسمان کے لیے زینت، شیاطین سے آسمان کی حفاظت کا ذریعہ اور بر و بحر کی ظلمتوں میں راستہ بتانے والے ہیں، مگر جب چاند کی اتنی تاثیر ہے کہ اس کے عروج و زوال سے سمندر جیسی عظیم مخلوق مدو جزر کا شکار ہو جاتی ہے تو ان ستاروں کی کائنات پر تاثیر تو انھیں پیدا کرنے والا ہی جانتا ہے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’(پہلی) چار چیزوں سے تو بندوں کے کام صریح طور پر وابستہ نظر آتے ہیں، مگر ستاروں سے انسانی فوائد کا تعلق ہونا صریح نہ تھا، اس لیے ان کو جدا کر دیا۔(فَتَدَبَّرْ) ‘‘ ہاں سورج، چاند یا ستاروں کا تقدیر سے یا غیب کی بات معلوم کرنے سے کوئی تعلق نہیں، نہ ان کے پاس بارش برسانے یا نفع نقصان کا کچھ اختیار ہے۔ جو شخص یہ عقیدہ رکھے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اللہ کے ساتھ کفر کرنے والا اور ستاروں پر ایمان رکھنے والاہے۔ (دیکھیے بخاری : ۱۰۳۸) ستاروں کی تسخیر میں اللہ تعالیٰ کی توحید کی ایک نہیں بہت سی نشانیاں ہیں، اس لیے لفظ آیات جمع ذکر فرمایا، مگر ان کے لیے جو عقل کو استعمال کرتے ہیں، ان کے لیے نہیں جن کا ذکر سورۂ انفال (۲۲) یا سورۂ حج (۴۶) وغیرہ میں آیا ہے۔