وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ
اور اپنے رب کی عبادت کر (یہاں تک کہ تجھے یقین (موت) آجائے ۔
وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ : یعنی موت آنے تک اپنے رب کی عبادت پر قائم رہیں۔ موت کو ’’یقین‘‘ اس لیے فرمایا کہ ہر جان دار کے لیے اس کا آنا یقینی ہے۔ قرآن میں بعض دوسرے مقامات پر بھی ’’یقین‘‘ کا لفظ موت کے معنی میں آیا ہے، جیسے فرمایا : ﴿ حَتّٰى اَتٰىنَا الْيَقِيْنُ ﴾ [ المدثر : ۴۷ ] ’’یہاں تک کہ ہمیں یقین آ پہنچا (یعنی موت ا ٓگئی)۔‘‘ اس لیے سب قابل ذکر مفسرین نے اس آیت میں یقین کو بمعنی موت مراد لیا ہے۔ تو جب تک ہوش رہے نماز اوردوسری عبادات زندگی کے آخری دم تک حسب طاقت کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر یا پہلو کے بل لیٹ کر ادا کرنا فرض ہے۔ بعض جاہل اور بے عمل پیر اس آیت کی رو سے کہتے ہیں کہ عبادت کرتے کرتے جب یقین حاصل ہو جائے تو پھر عبادت کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے وہ اپنے آپ کو نماز، روزہ اور عبادات سے مستثنیٰ قرار دے لیتے ہیں۔ یہ تفسیر کتاب اللہ کے ساتھ کھیل ہے۔ کیا یہ جس یقین کا نام لیتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو حاصل نہ ہو سکا کہ وہ آخر وقت تک نماز، روزہ اور دوسری عبادات کی پابندی کرتے رہے۔ بہرحال آیت میں یقین سے مراد یقین قلبی لینا اور نماز روزہ چھوڑ دینا صریح بے دینی ہے۔