سورة الحجر - آیت 19

وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُونٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور ہم نے زمین کو پھیلا دیا ۔ اور اس پر بوجھ ڈال دئیے ، اور اس میں ہر موزون شئے اگائی ،

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ الْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا: اب زمین اور اس پر پیدا کر دہ اشیاء کو توحید کی دلیل کے لیے بیان کیا جا رہا ہے۔ ’’مَدَدْنٰهَا ‘‘ ’’مَدَّ يَمُدُّ ‘‘ (ن) کا معنی ہے کھینچنا، پھیلانا۔ جب ہم زمین کی وسعت اور پھیلاؤ کو دیکھتے ہیں تو وہ اتنی ہے کہ اس پر چلنے پھرنے، رہنے، کاشت کرنے، مکان یا سڑکیں بنانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی، مگر آنکھوں کو اس کی انتہا نظر نہیں آتی، خواہ کتنا سفر کر لیں۔ یہ پھیلاؤ اور مدّ دلیل ہے کہ زمین کو اللہ تعالیٰ نے گول بنایا ہے، ورنہ اگر یہ مربع یا کسی اور شکل کی ہوتی تو یہ پھیلاؤ کسی جگہ جا کر ختم ہو جاتا، اب تو گول زمین کی تصویریں بھی آ چکی ہیں اور تجربے سے بھی یہ حقیقت ثابت ہو چکی ہے، اس کے باوجود اس کا جھکاؤ ایسا عجیب ہے کہ نہ نظر آتا ہے اور نہ اس کلیے میں کوئی فرق پڑتا ہے کہ ’’پانی اپنی سطح ہموار رکھتا ہے‘‘ مگر سیکڑوں برس پہلے اس حقیقت کو وہی بیان کر سکتا تھا جس نے اسے پیدا کیا اور پھیلایا ہے۔ وَ اَلْقَيْنَا فِيْهَا رَوَاسِيَ: ’’ رَوَاسِيَ ‘‘ ’’ رَاسِيَةٌ ‘‘ کی جمع ہے جو ’’ رَسَا يَرْسُوْ ‘‘ (ن) کا اسم فاعل ہے، جس کا معنی کسی بھاری چیز کا گڑا ہوا ہونا ہے۔ مراد پہاڑ ہیں جن کا اکثر حصہ زمین کے اندر اور باقی باہر ہوتا ہے۔ اس سے ایک دوسری حقیقت بھی ثابت ہوتی ہے کہ زمین کو متحرک بنایا گیا ہے، تبھی اس پر بھاری پہاڑ زمین کی گردش میں توازن رکھنے کے لیے گاڑ دیے گئے، تاکہ تیز رفتاری کے باوجود اس میں لرزش اور تھرتھراہٹ پیدا نہ ہو، جیسا کہ گاڑی کے پہیوں کا توازن برقرار رکھنے کے لیے ان کی مختلف جگہوں پر ضرورت کے مطابق لوہے وغیرہ کے ٹکڑے لگا دیے جاتے ہیں۔ ایک اور آیت میں بھی یہ اشارہ موجود ہے : ﴿وَ تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّ هِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ﴾ [ النمل : ۸۸] ’’اور تو پہاڑوں کو دیکھے گا، انھیں گمان کرے گا کہ وہ جمے ہوئے ہیں،حالانکہ وہ بادلوں کے چلنے کی طرح چل رہے ہوں گے۔‘‘ وَ اَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ:’’ فِيْهَا ‘‘ یعنی زمین میں ہر چیز اتنی اگائی اور پیدا کی جتنی اس کی ضرورت تھی، نہ کسی چیز کو بلاضرورت پیدا کیا اور نہ ایک خاص حد سے بڑھنے دیا۔ ’’ فِيْهَا ‘‘ میں ضمیر جبال (پہاڑوں) کے لیے بھی ہو سکتی ہے، یعنی پہاڑوں کے اندر ہر چیز یعنی معدنیات وغیرہ پورے اندازے سے پیدا کیں۔ (شوکانی)