وَتَرَى الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ مُّقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ
اور تو اس دن گنہگاروں کو زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھے گا ۔
1۔ وَ تَرَى الْمُجْرِمِيْنَ يَوْمَىِٕذٍ مُّقَرَّنِيْنَ : ’’قَرَنٌ‘‘ قاف اور راء کے فتحہ کے ساتھ، وہ رسی جس میں دو بیل یا دو آدمی اکٹھے بندھے ہوتے ہیں۔ ’’ مُقَرَّنِيْنَ ‘‘ کئی آدمی جو آپس میں اکٹھے جکڑے ہوتے ہوں۔ سورۂ صٓ (۳۸) میں ہے : ﴿وَ اٰخَرِيْنَ مُقَرَّنِيْنَ فِي الْاَصْفَادِ ﴾ یعنی سلیمان علیہ السلام کے تابع کئی جن کر دیے جو زنجیروں میں باہم جکڑے ہوئے تھے۔ لسان العرب میں ہے کہ ’’ مُقَرَّنِيْنَ ‘‘ یا تو ’’مَقْرُوْنِيْنَ‘‘ کے معنی میں ہے، یا باب تفعیل تکثیر کے لیے ہے، یعنی کئی مجرم آپس میں زنجیروں میں بری طرح جکڑے ہوئے ہوں گے۔ 2۔ فِي الْاَصْفَادِ: ’’ الْاَصْفَادِ ‘‘ ’’صَفَدٌ‘‘ (فاء کے فتحہ کے ساتھ) کی جمع ہے جو اس زنجیر کو کہتے ہیں جو پاؤں میں ڈالی جائے، یا وہ طوق جس کے ساتھ ہاتھ پاؤں کو گردن کی طرف باندھ دیا جاتا ہے۔ [ الوسیط للطنطاوی ] یعنی اے مخاطب! تو اس دن کئی مجرموں کو ایک دوسرے کے ساتھ زنجیروں میں بندھے ہوئے دیکھے گا۔ ہر قسم کا مجرم اپنے جیسے مجرموں کے ساتھ جکڑا ہوا ہو گا۔ دیکھیے سورۂ فرقان (۱۳) اور سورۂ حاقہ (۳۰ تا ۳۳) اور ہر فاسق اپنے جیسے فاسق کے ساتھ ہو گا۔ دیکھیے سورۂ صافات (۲۲، ۲۳) اور مریم (۶۸)۔