فَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ
سو تو یہ خیال نہ کر کہ اللہ اپنا وعدہ اپنے رسولوں سے خلاف کرے گا ، بےشک اللہ غالب بدلہ لینے والا ہے (ف ١) ۔
فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ مُخْلِفَ وَعْدِهٖ رُسُلَهٗ.....: اللہ کے وعدے سے مراد دنیا و آخرت میں اللہ کے رسولوں اور اہل ایمان کی نصرت و عزت ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ﴾ [ المؤمن : ۵۱ ] ’’بے شک ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں دنیا کی زندگی میں اور جس دن گواہ کھڑے ہوں گے۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ مجادلہ (۲۱) اور سورۂ ابراہیم (۱۳، ۱۴) کی تفسیر۔ اس سے مقصود ایک طرف تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا اور دوسری طرف آپ کے مخالفین کو متنبہ کرنا ہے کہ جس طرح پہلے انبیاء علیھم السلام سے جو ہم نے وعدے کیے وہ سب پورے کیے اسی طرح اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تائید و نصرت کا جو وعدہ کر رہے ہیں اسے بھی یقیناً پورا کریں گے اور ان لوگوں کو تباہ و برباد کریں گے جو آپ کی مخالفت پر کمربستہ ہیں، کیونکہ اللہ سب پر غالب ہے، انتقام والا ہے۔