فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ
ان کے دلوں میں بیماری ہے ، (ف ١) پھر خدا نے ان کی بیماری بڑھا دی اور جھوٹ بولنے کے سبب ان کے لئے دردناک عذاب ہے ۔
1۔ فِيْ قُلُوْبِهِمْ: خبر مقدم ہے، جس سے حصر پیدا ہوتا ہے، اس لیے ترجمہ ’’ ان کے دلوں ہی میں ‘‘ کیا گیا ہے۔ 2۔یہ اس سوال کا جواب ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اللہ کو دھوکا دے جو عالم الغیب ہے اور مومنوں کو دھوکا دے جن سے زیادہ فراست والا کوئی ہو نہیں سکتا اور سمجھے کہ میں دھوکا دینے میں کامیاب ہوں ۔ فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دل ہی ایک ایسے مرض میں مبتلا ہیں جس نے انھیں خود فریبی کی آخری حد تک پہنچا دیا ہے۔ وہ مرض نفاق ہے جو کفر کو چھپانے کی کوشش کا نام ہے۔ اس بیماری سے بے شمار نفسیاتی بیماریاں مزید پیدا ہوتی اور بڑھتی چلی جاتی ہیں ، مثلاً جھوٹ، خیانت، وعدہ خلافی، بد عہدی، بد زبانی جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی نشانیاں قرار دیا ہے۔ اسی طرح فساد، خود پسندی، بے وقوفی، دو رخی جن کا ذکر آئندہ آیات میں ہے اور بہت سی دیگر بیماریاں مثلاً بزدلی، طمع، بخل، جہاد سے فرار وغیرہ جن کا ذکر سورۂ توبہ اور دیگر سورتوں میں ہے۔ 3۔ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ: منافقین باطن میں کافر ہونے کی وجہ سے عذابِ عظیم کے مستحق تھے، اب اسلام کے جھوٹے دعوے کی وجہ سے عذابِ الیم یعنی دوہرے عذاب کے حق دار ٹھہرے۔