سورة ابراھیم - آیت 21

وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِيعًا فَقَالَ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِن شَيْءٍ ۚ قَالُوا لَوْ هَدَانَا اللَّهُ لَهَدَيْنَاكُمْ ۖ سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِن مَّحِيصٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اللہ کے سامنے سب آ کھڑے ہوں گے ، پھر ضعیف لوگ سرکشوں سے کہیں گے کہ ہم دنیا میں تمہارے پیچھے تھے ، سو کیا تم اللہ کا کچھ عذاب ہم سے دفع کرسکتے ہو ؟ وہ کہیں گے کہ اگر دنیا میں اللہ ہمیں ہدایت کرتا تو ہم تمہیں ہدایت کرتے اب ہم بیزاری کریں یا صبر کریں ہمارے لیے برابر ہے ہم کسی طرح نہیں چھوٹ سکتے (ف ٢)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ بَرَزُوْا لِلّٰهِ جَمِيْعًا ....: ’’ تَبَعًا ‘‘ یہ ’’تَابِعٌ‘‘ کی جمع ہے، جیسے ’’خَادِمٌ‘‘ کی جمع ’’خَدَمٌ‘‘ ہے، یعنی اس دن دنیا میں چھپاؤ کی تمام جگہیں ختم ہو جائیں گی۔ پہاڑوں کی بلندیاں، سمندروں کی گہرائیاں اور سطح زمین کی کُرویّت ختم ہو کر روٹی کی طرح صاف زمین پر ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہو گی۔ دنیا میں کمزور اور طاقت ور، مرید و مرشد، رعایا اور سردار ایک جیسی عاجزی اور بے بسی کے ساتھ اللہ کے سامنے ہوں گے، تو کمزور لوگ اپنے گمراہ کرنے والے بڑوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمھارے پیچھے چلنے والے تھے اور اس وجہ سے ہم نے انبیاء کو جھٹلایا اور اللہ سے کفر کیا، اب کیا تم اللہ کے عذاب سے بچانے میں ہمارے کسی کام آ سکتے ہو؟ ’’ مِنْ شَيْءٍ ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ سارا عذاب نہیں تو اس میں سے جتنا ہو سکے کم کروا دو۔ وہ سارا گناہ اللہ کے ذمے ڈال کر خود بری ہو کر ان کی کسی بھی قسم کی مدد سے معذرت کر لیں گے۔ چنانچہ کہیں گے، اگر اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم تمھیں ہدایت دیتے، گویا سارا قصور اللہ تعالیٰ کا ہے جس نے ہمیں ہدایت نہیں دی۔ [ اَلْعِیَاذُ بِاللّٰہِ ] جیسا کہ شیطان نے سجدے سے انکار کرکے اپنے گمراہ ہونے کو اللہ تعالیٰ کے ذمے لگا دیا، فرمایا : ﴿ قَالَ فَبِمَا اَغْوَيْتَنِيْ ﴾ [ الأعراف : ۱۶] ’’کہا، چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا۔‘‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو ہدایت دی تھی، دونوں راستے دکھا دیے تھے، فرمایا : ﴿اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا ﴾ [ الدھر : ۳ ] ’’بلاشبہ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، خواہ وہ شکر کرنے والا بنے اور خواہ ناشکرا۔‘‘ اب تمھارا اختیار تھا، نہ اس نے تمھیں بدی پر مجبور کیا نہ نیکی پر اور یہی آزمائش کی حکمت جن و انس کی پیدائش کا باعث تھی۔ خیر اب ایسے عذاب میں پھنس جانے کے بعد جس سے بھاگ نکلنے کی کوئی صورت نہیں، ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں، گھبراہٹ کا اظہار کریں یا صبر کریں۔ دونوں کا کچھ فائدہ ہے نہ یہاں سے چھٹکارے کی کوئی صورت ہے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ظاہر یہ ہے کہ ان کی یہ باہمی قیل و قال جہنم میں داخلے کے بعد ہوگی۔ دیکھیے سورۂ مومن (۴۷)، سورۂ اعراف (۳۸) اور سورۂ سبا (۳۲، ۳۳) بہرحال ان کا یہ جھگڑا میدان حشر اور جہنم دونوں میں بھی ہو سکتا ہے۔