يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
لوگو ! جو کچھ زمین میں حلال اور ستھرا ہے اسے کھاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو ، کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ (ف ١)
سورۂ بقرہ میں ”يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ“ کے ساتھ خطاب دوسری مرتبہ کیا گیا ہے۔ اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو ’’انداد‘‘ (شریک) بنانے کا برا انجام ذکر کیا گیا ہے۔ مشرکین ان ’’انداد‘‘ کی تعظیم و تکریم میں اتنی زیادتی کرتے کہ عبادت اور دعا میں بھی ان کو پکارتے اور ان کے نام پر بہت سے مویشی مثلاً بحیرہ، سائبہ، وصیلہ وغیرہ حرام قرار دے دیتے، ان پر نہ سواری کرتے اور نہ ان کا گوشت کھاتے اور ان کو اللہ کے قریب ہونے کا ذریعہ سمجھتے (دیکھیے انعام : ۱۳۸، ۱۳۹) اور دوسری طرف انھوں نے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال ٹھہرایا تھا، مثلاً مردار، خون، خنزیر اور غیر اللہ کے لیے نذر و نیاز۔ چنانچہ اس آیت میں اس طرح کے حرام ٹھہرا لینے سے منع فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ حلال اور طیب چیزیں کھانے کا حکم دیا، یعنی اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں سے بچو اور اس کی حلال کردہ طیب چیزوں کو حرام نہ ٹھہراؤ، کیونکہ اسلام تب معتبر ہو گا جب کوئی شخص مسلمانوں کی حلال اشیاء کو حرام نہیں ٹھہرائے گا، جیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’جس نے وہ نماز پڑھی جو ہم پڑھتے ہیں اور اس قبلے کی طرف رخ کیا جس کی طرف ہم رخ کرتے ہیں اور ہمارا ذبیحہ کھایا وہ مسلمان ہے۔‘‘ [ بخاری، الصلٰوۃ، باب فضل استقبال القبلۃ : ۳۹۱ ] چنانچہ یہاں بھی فرمایا کہ شیطان کے پیچھے لگ کر ان کو حرام نہ ٹھہراؤ۔ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی ہر نافرمانی اور دین میں شامل کی ہوئی ہر وہ بات جو اللہ اور اس کے رسول نے نہیں بتائی، یعنی ہر بدعت شیطان کے قدموں کی پیروی ہے۔