لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَالَّذِينَ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُ لَوْ أَنَّ لَهُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ سُوءُ الْحِسَابِ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمِهَادُ
جنہوں نے اپنے رب کی بات مانی ان کے لیے بھلائی ہے ۔ اور جنہوں نے اس کی بات نہ مانی ، اگر ان کے پاس تمام زمین کا سارا مال بھی ہو اور اس کے اتنا ہی اور بھی ہو تو سارا ضرور اپنے فدیہ میں دے دیں ، مگر پھر بھی قبول نہ ہو ، اور وہ برا بچھونا ہے
1۔ لِلَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا ....: ’’الْحُسْنٰى ‘‘ ’’اَلْاَحْسَنُ‘‘ کی مؤنث ہے، بمعنی سب سے اچھی، جیسے ’’ حَسَنٌ‘‘ اور ’’اَحْسَنُ‘‘ ہے، اسی طرح ’’ حَسَنَةٌ ‘‘ اور ’’حُسْنٰي‘‘ ہے، اس کا موصوف محذوف ہے، یعنی رب کی بات قبول کرنے والوں کے لیے سب سے اچھی جزا، یعنی جنت ہے۔ ’’ وَ الَّذِيْنَ لَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَهٗ ‘‘ مبتدا ہے اور ’’ لَوْ اَنَّ لَهُمْ ‘‘ پورا جملہ شرطیہ اس کی خبر ہے، مطلب یہ ہے کہ جو لوگ حق سے عناد رکھتے ہیں قیامت کے دن ان پر جو مصیبت آئے گی وہ اس سے رہائی کے لیے اس قدر مال و دولت کی بھی پروا نہیں کریں گے اور فدیہ میں دینے کو تیار ہو جائیں گے۔ 2۔ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ سُوْٓءُ الْحِسَابِ: یہ اس کے مقابلے میں ہے جو فرمایا تھا کہ اپنے رب کی بات قبول کرنے والوں کے لیے بھلائی (بہترین بدلہ) ہے، یعنی یہ دعوت قبول نہ کرنے والوں کا بہت برا حساب ہو گا، انھیں کسی قسم کی معافی نہیں دی جائے گی اور ان کے ایک ایک گناہ پر بری طرح محاسبہ ہو گا۔ یہی مناقشہ فی الحساب ہے۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ حُوْسِبَ عُذِّبَ، قَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ أَوَ لَيْسَ يَقُوْلُ اللّٰهُ تَعَالٰی: ﴿فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَّسِيْرًا﴾ [الإنشقاق : ۸] قَالَتْ، فَقَالَ إِنَّمَا ذٰلِكَ الْعَرْضُ، وَلَكِنْ مَنْ نُوْقِشَ الْحِسَابَ يَهْلِكْ)) [ بخاري، العلم، باب من سمع شیئًا فراجع ....: ۱۰۳ ] ’’جس کا حساب کیا گیا اسے عذاب دیا جائے گا۔‘‘ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ اس پر میں نے عرض کیا : ’’اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرماتا : ﴿ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَّسِيْرًا ﴾ یعنی جسے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دیا گیا اس کا حساب آسان ہو گا (مطلب یہ ہے کہ یہاں حساب کے باوجود عذاب نہیں ہو گا تو اس کا مطلب کیا ہے)؟‘‘ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ صرف پیش کیا جانا ہے اور لیکن جس سے مناقشہ ہوا (یعنی ایک ایک چیز کی پڑتال ہوئی) وہ ہلاک ہو جائے گا۔‘‘ 3۔ وَ بِئْسَ الْمِهَادُ : مہد اور مہاد اصل میں بچے کے لیے تیار کر دہ جگہ کو کہتے ہیں، گود ہو یا بچھونا، اسی طرح ہر اچھی طرح آرام کے لیے بنائی ہوئی جگہ کو مہاد کہتے ہیں۔ آپ سوچیں کہ بچے کو آرام کے لیے آگ پر لٹا دیا جائے تو اس کا کیا حال ہو گا؟ اسی طرح اللہ کی دعوت قبول نہ کرنے والے کی آرام گاہ جہنم ہو گی۔ [ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْھَا ]