ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۖ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ
(اے محمد ﷺ) یہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم تیری طرف بذریعہ وحی پہنچاتے ہیں اور تو تو ان کے پاس نہ تھا جب وہ اپنے مشورہ پر متفق ہوئے اور وہ مکر کر رہے تھے۔
1۔ ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْكَ : یعنی غیب کی یہ خبریں اپنی صحیح تفصیلات کے ساتھ ہم نے آپ کو وحی کے ذریعے سے بتائیں، ہماری وحی کے بغیر آپ کو یہ کیسے معلوم ہو سکتی تھیں۔ اس سے مقصود کفارِ مکہ کو متنبہ کرنا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پیغمبر ہیں، اگر سچے پیغمبر نہ ہوتے تو ہزاروں برس پہلے کے یہ واقعات کیسے معلوم کر سکتے تھے اور تمھیں کیسے سنا سکتے تھے۔ 2۔ وَ مَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ اِذْ اَجْمَعُوْا اَمْرَهُمْ ....: یعنی اگر ہم آپ کو نہ بتاتے تو آپ کو کچھ خبر نہ تھی، کیونکہ آپ اس وقت ان کے پاس موجود نہ تھے۔ قرآن مجید نے ’’ وَ مَا كُنْتَ ‘‘ کے ساتھ یہ بات کئی جگہ دہرائی ہے اور اپنا احسان جتلایا ہے کہ آپ کو گزشتہ واقعات کا کچھ علم نہ تھا، نہ آپ وہاں موجود تھے جب یہ سب کچھ ہوا، یہ ہم ہی ہیں جنھوں نے وحی کے ذریعے سے آپ کو یہ واقعات بتائے۔ اس لیے اہلِ مکہ اور دوسرے کفار کو آپ کی نبوت میں ہر گز شک نہیں کرنا چاہیے۔ اس میں ان مسلمانوں کے لیے بھی سبق ہے جو کہتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر بات کا پہلے ہی علم تھا، اگر ایسا ہی تھا تو وحی کی کیا ضرورت تھی۔ قرآن مجید کی ’’ وَ مَا كُنْتَ ‘‘ والی تمام آیات آپ کے علم غیب کی نفی کرتی ہیں۔ ’’ وَ مَا كُنْتَ ‘‘ کے مقامات کی سیر کے لیے ملاحظہ فرمائیں سورۂ آل عمران (۴۴)، ہود (۴۹)، یوسف (۱۰۲)، قصص (۴۴، ۴۵، ۴۶، ۸۶)، عنکبوت (۴۸) اور شوریٰ (۵۲)۔ 3۔ اس آیت میں یہ بھی اشارہ ہے کہ یوسف علیہ السلام کا قصہ اہل کتاب سے جن تفصیلات کے ساتھ منقول ہے وہ تمام کی تمام صحیح نہیں، کیونکہ اگر صحیح ہوتیں تو ان کی کوئی بات قرآن مجید کے خلاف نہ ہوتی جو ان کی کتابوں پر نگران اور ان کے صحیح مضامین کا محافظ ہے۔ دیکھیے سورۂ مائدہ (۴۸) اس لیے صحیح و غلط کے گڈ مڈ ہو جانے کی وجہ سے ان کی معلومات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔