فَلَمَّا أَن جَاءَ الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَىٰ وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا ۖ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
پھر جب بشارت دینے والا آ گیا تو اس نے کرتہ اس کے منہ پر ڈالا سو وہ بینا ہوگیا ، کہا کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں خدا سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
1۔ ’’ فَلَمَّا اَنْ جَآءَ الْبَشِيْرُ ‘‘ اور ’’فَلَمَّا جَاءَ الْبَشِيْرُ‘‘ کے ترجمے کے فرق کی تفصیل کے لیے دیکھیے اسی مترجم قرآن کے عرض مترجم میں سے فائدہ (۸) خوش خبری لانے والے نے آتے ہی چہرے پر قمیص ڈالی اور یوسف علیہ السلام کے زندہ ہونے کی خوش خبری دی تو اسی وقت آنکھیں دوبارہ روشن ہو گئیں۔ 2۔ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ: یوسف علیہ السلام کی قمیص سے آنکھیں روشن ہونے اور ان کے زندہ ہونے کی خوش خبری آنے پر فرمایا کہ میں نے تمھیں کہا نہ تھا : ﴿ اِنِّيْ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ یعنی مجھے وحی الٰہی سے وہ باتیں معلوم ہوتی ہیں جو تم نہیں جانتے۔ مراد اپنے بچوں کو ملامت کرنا نہ تھا بلکہ تربیت کرنا تھا، تاکہ وہ نبوت کے مقام کو سمجھیں اور نبی کی بات کو محبت کے غلو پر یا عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے خرابی عقل پر محمول نہ کریں، مثلاً یہ یقین کہ یوسف علیہ السلام زندہ ہے، اللہ تعالیٰ اسے ضرور ملائے گا، یا یہ بات کہ مجھے یوسف کی خوشبو آ رہی ہے۔