قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَاوَدتُّنَّ يُوسُفَ عَن نَّفْسِهِ ۚ قُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِن سُوءٍ ۚ قَالَتِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ
بادشاہ نے کہا ، اے عورتو ! تمہارا کیا حال تھا ، جب تم نے یوسف (علیہ السلام) کو پھسلایا تھا ؟ بولیں ، حاش اللہ ، ہمیں اس کی کوئی برائی معلوم نہیں ، عزیز کی عورت نے کہا اب حق ظاہر ہوگیا ، میں نے خود اس کے نفس کو پھسلایا تھا ، اور وہ سچوں میں ہے (ف ١) ۔
قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ اِذْ رَاوَدْتُّنَّ.....: بادشاہ نے ان تمام خواتین کو طلب کر لیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس دوران میں وہ معاملے کی پوری تحقیق کر چکا تھا اور یوسف کی بے گناہی اور عورتوں کے فریب سے آگاہ ہو چکا تھا، اس لیے اس نے یہ نہیں کہا کہ تمھارا قصور تھا یا یوسف کا، بلکہ ان سے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ جب تم نے یوسف علیہ السلام کو اس کے نفس سے پھسلایا تھا، تمھارے اس معاملے کی حقیقت کیا تھی؟ یعنی آخر اس کا کیا جرم تھا جس کی وجہ سے اسے اتنی دیر قید خانے میں رکھا گیا؟ وہ سب بیک زبان بولیں : ’’اللہ کی پناہ! ہم نے اس پر کوئی برائی معلوم نہیں کی۔‘‘ ہاتھ کاٹنے والیوں نے جب یوسف علیہ السلام کو کسی بھی قسم کی برائی سے پاک قرار دیا تو ہاتھ نہ کاٹنے والی عزیز مصر کی بیوی کو بھی بولنا پڑا، اس نے کہا، اب تو حق بالکل ظاہر ہو گیا، میں نے ہی اسے اس کے نفس سے پھسلایا تھا اور یقیناً وہ سچوں سے ہے۔