يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا ۖ وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِن رَّأْسِهِ ۚ قُضِيَ الْأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ
اے قید خانہ کے میرے دو رفیقو ! تم میں سے ایک تو اپنے مالک کو شراب پلائے گا اور دوسرا سولی پر چڑھایا جائے گا اور اس کے سر میں سے پرندے کھائیں گے وہ کام فیصل ہوگیا جس میں تم دونوں فتوی چاہتے تھے ۔
1۔ يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ.....: تعبیر بیان کرتے وقت یوسف علیہ السلام کے حسن ادا کو ملاحظہ فرمائیں، ایک تو دونوں میں سے ایک کو متعین کرکے نہیں فرمایا کہ تیرے خواب کا یہ نتیجہ ہے اور تیرے خواب کا یہ، حالانکہ جواب سے ظاہر تھا کہ ساقی نے عہدے پر بحال ہونا ہے اور دوسرے نے سولی چڑھنا ہے، بلکہ فرمایا تم میں سے ایک کی تعبیر یہ ہے اور ایک کی یہ۔ پھر اس بات کو بھی سامنے رکھیے کہ پہلے وہ تعبیر بتائی جو خوش خبری والی تھی، دوسری بعد میں بتائی۔ مقصد یہ تھا کہ دل شکنی میں جتنی بھی دیر ہو سکے کی جائے اور خوشی کی خبر جتنی جلد ہو سکے پہنچائی جائے۔ 2۔ قُضِيَ الْاَمْرُ الَّذِيْ فِيْهِ تَسْتَفْتِيٰنِ : یعنی یہ فیصلہ ہو چکا، جو اب ٹل نہیں سکتا ہے۔ یہاں لفظ ’’ قُضِيَ ‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگلی آیت میں جو لفظ ’’ ظَنَّ ‘‘ آ رہا ہے وہ یہاں یقین کے معنی میں ہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ خواب کی تعبیر اجتہادی ظن تھا، لہٰذا یہ ظن اصلی معنی میں ہے۔ (ابن کثیر، روح المعانی) موضح میں ہے : ’’ ظَنَّ ‘‘ فرمایا، معلوم ہوا کہ تعبیر خواب یقین نہیں اٹکل ہے، مگر پیغمبر اٹکل کرے تو بے شک ہے، یعنی اٹکل نہیں ہے۔‘‘