إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَخْبَتُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
جو ایمان لائے ، اور نیک کام کئے ، اور رب کے سامنے عاجزی کی وہی بہشتی ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے (ف ٢) ۔
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ....: ’’اَخْبَتُوْا ‘‘ ’’اِخْبَاتٌ‘‘ کا معنی ہے جھکنا، عاجزی کرنا، مطمئن ہونا۔ جمل رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’اَخْبَتَ لَهُ‘‘ کا معنی ہے ’’خَشَعَ وَ خَضَعَ لَهُ ‘‘ وہ اس کے سامنے عاجز ہو گیا اور ’’اَخْبَتَ اِلَيْهِ ‘‘ کا معنی ہے ’’اِطْمَئَنَّ اِلَيْهِ‘‘ کہ وہ اس کی طرف سے مطمئن ہو گیا۔ سب سے بڑے ظالموں، یعنی اللہ پر جھوٹ باندھنے والے کفار و مشرکین کے بعد اب اہل ایمان کا تذکرہ فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اعمال صالحہ کیے اور اپنے رب کے سامنے عاجز اور اس کی تقدیر اور فیصلے پر مطمئن ہو گئے وہ جنت کے مالک ہوں گے۔ ’’اخبات‘‘ والوں کی کچھ صفات سورۂ حج (۳۴، ۳۵، ۵۴) میں آئی ہیں۔