سورة یونس - آیت 106

وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ ۖ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اللہ کے سوا انہیں جو تیرا بھلا برا نہ کریں ، مت پکار ، پھر اگر تو ایساکرے گا تو تو بھی اس وقت ظالموں میں ہوجائے گا (ف ١) ۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَ لَا يَضُرُّكَ: اس میں اللہ تعالیٰ کے سوا زمین و آسمان کی ہر زندہ یا مردہ ہستی اور ہر جان دار یا بے جان چیز آگئی۔ یہ مطلب نہیں کہ پہلے تو کسی بزرگ یا نبی کی قبر کے بارے میں یہ غلط عقیدہ قائم کر لیا جائے کہ وہ نفع نقصان پہنچا سکتی ہے، پھر اسے سجدے کیے جائیں اور اس سے مرادیں طلب کی جائیں اور کہا جائے کہ ہم نفع نقصان کا اختیار رکھنے والوں ہی کو پکار رہے ہیں۔ اس آیت کی اس طرح تاویل کرنا اللہ کی کتاب سے کھیلنا اور اس کا مذاق اڑانا ہے۔ اس آیت کا صاف مطلب مشرکین کو سمجھانا ہے کہ ہر قسم کے نفع نقصان کا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ (فتح القدیر) اس سے اگلی آیت میں اس کی صراحت بھی آ رہی ہے۔ یہاں اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غیر اللہ کے پکارنے سے منع کیا گیا ہے، مگر درحقیقت پوری امت کو اس سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ اس شخص کو منع کرنا جس نے نہ وہ کام کیا ہو نہ کبھی کرنا ہو، اس کا مطلب دوسروں کو منع کرنے میں مبالغہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ لَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَ اِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ﴾ [ الزمر : ۶۵ ] ’’اور بلاشبہ یقیناً تیری طرف وحی کی گئی اور ان لوگوں کی طرف بھی جو تجھ سے پہلے تھے کہ بلاشبہ اگر تو نے شریک ٹھہرایا تو یقیناً تیرا عمل ضرور ضائع ہو جائے گا اور تو ضرور بالضرور خسارہ اٹھانے والوں سے ہو جائے گا۔‘‘ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّكَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِيْنَ: کیونکہ شرک کے برابر کوئی ظلم نہیں، جیسے فرمایا : ﴿ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ ﴾ [لقمان : ۱۳] ’’بے شک شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘ ظلم کا مطلب ہے : ’’وَضْعُ الشَّيْءِ فِيْ غَيْرِ مَحَلِّهٖ ‘‘ کہ کسی چیز کو بے موقع اور غلط جگہ استعمال کرنا۔ تو عبادت جو صرف خالق کا حق ہے کسی مخلوق کو دینے سے بڑا ظلم اور بے انصافی کیا ہو سکتی ہے۔ یہاں ’’اگر تو نے ایسا کیا‘‘ سے مراد ہے کہ اگر تو نے اس کو پکارا جو نہ تجھے نفع دے نہ نقصان تو ظالموں میں سے ہو گا۔ یہ مضمون قرآن مجید کی کئی آیات میں بیان ہوا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی بھی نہ کسی نفع کا مالک ہے نہ نقصان کا۔ دیکھیے سورۂ نمل (۶۲)، مائدہ (۷۶) اور سبا (۲۲) اور بھی بہت سی آیات ہیں۔