قَالَ قَدْ أُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِيمَا وَلَا تَتَّبِعَانِّ سَبِيلَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ
فرمایا تم دونوں کی دعاء قبول ہوئی ، سو تم ثابت قدم رہو ، اور بےعلموں کی راہ پر نہ چلو ،
1۔ قَالَ قَدْ اُجِيْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا : یعنی یقیناً تم دونوں کی دعا قبول کر لی گئی۔ معلوم ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام بھی اس دعا میں شریک تھے۔ بعض اہل علم کے اقوال ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام دعا کرتے تھے اور ہارون علیہ السلام آمین کہتے تھے، مگر یہ بات قرآن مجید سے یا حدیث سے مجھے نہیں ملی۔ 2۔ فَاسْتَقِيْمَا : اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ دعوت پر ثابت قدم رہو، بے شک تمھاری دعا قبول ہے، مگر قبولیت ظاہر ہونے میں دیر ہو سکتی ہے، اس لیے دیر کی وجہ سے دعوت میں کوتاہی نہ کرنا۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ ہی کے علم میں ہے کہ قبولیت کااثر کب ظاہر ہو گا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اب اپنی اس بد دعا پر قائم رہنا، ایسا نہ ہو کہ میرا عذاب آنے پر ان کی سفارش کرنے لگو۔ یہ ایسے ہی ہے جس طرح نوح علیہ السلام نے بددعا کی تو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ سارے کافر غرق ہوں گے، مگر اب مجھ سے ان ظالموں کے (حق میں) بات نہ کرنا۔ (دیکھیے ہود : ۳۷) اللہ تعالیٰ کو نوح اور موسیٰ علیہما السلام کی بددعا کے باوجود ان کے دل کی نرمی کا علم تھا، اس لیے انھیں پہلے ہی اپنی بددعا پرثابت رہنے کی تاکید فرما دی۔ مگر نوح علیہ السلام پھر بھی بیٹے کے لیے سفارش کر بیٹھے اور انھیں اللہ تعالیٰ کا عتاب سننا پڑا، جس پر انھوں نے معافی مانگی۔ دیکھیے سورۂ ہود (۴۵ تا ۴۷)۔ 3۔ وَ لَا تَتَّبِعٰٓنِّ سَبِيْلَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ : یعنی ان لوگوں کا راستہ اختیار نہ کرنا جو دعوت کے کام میں حوصلہ چھوڑ بیٹھتے ہیں، یا دعا کرتے ہی چاہتے ہیں کہ ان کا مطلب پورا ہو جائے اور اگر فوراً پورا نہ ہو تو شکایت کرنے لگتے ہیں کہ ہم نے بہت دعائیں کیں مگر پروردگار نے قبول ہی نہیں کیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يُسْتَجَابُ لِأَحَدِكُمْ مَا لَمْ يَعْجَلْ ، يَقُوْلُ دَعَوْتُ فَلَمْ يُسْتَجَبْ لِيْ )) [ بخاری، الدعوات، باب یستجاب للعبد ما لم یعجل : ۶۳۴۰۔ مسلم : ۲۷۳۵، عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ’’تم میں سے کسی شخص کی دعا قبول ہوتی رہتی ہے جب تک وہ جلدی نہیں کرتا، یہ نہیں کہتا کہ میں نے دعا کی مگر میری دعا قبول نہیں کی گئی۔‘‘