وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ وَأَخِيهِ أَن تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ
اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے بھائی کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی قوم کے لئے مصر میں گھر بناؤ ، اور اپنا گھر قبلہ رو بناؤ ، اور نماز پڑھو ، اور مومنین کو بشارت دے (ف ١) ۔
1۔ وَ اَوْحَيْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰى وَ اَخِيْهِ اَنْ تَبَوَّاٰ ....: ہماری امت کی خصوصیت ہے کہ اس کے لیے پوری زمین مسجد بنا دی گئی ہے۔ مسلمان کو جہاں بھی نماز کا وقت ہو جائے نماز پڑھ سکتا ہے۔ پہلی امتوں میں یہ سہولت نہ تھی، بلکہ عبادت کے لیے مقررہ مقامات ہی میں نماز پڑھنا ضروری تھا، خواہ آپ اسے مسجد کہہ لیں یا کنیسہ۔ فرعون کو بنی اسرائیل کا جمع ہونا کسی طرح برداشت نہ تھا، خصوصاً جو مقام فرعون کی ربوبیت کے انکار کا اور اکیلے اللہ کی ربوبیت اور عبادت کا نشان ہو اور ایک اللہ کے پرستار بنی اسرائیل روزانہ کئی مرتبہ وہاں جمع ہوتے ہوں۔ اس لیے ان آیات سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ فرعون نے ان کے عبادت خانوں میں جانے پر پابندی لگا دی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو وحی فرمائی کہ مصرمیں کچھ گھروں کو اپنی نماز کی جگہ مقرر کر لو اور اپنے گھر قبلہ رخ بنا لو۔ اس سے کسی حد تک اجتماع کا موقع بھی ملتا رہے گا، باہمی ملاقات سے محبت بھی بڑھتی رہے گی اور نماز باجماعت بھی ہوتی رہے گی اور ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی بھی۔ ایسی صورت میں بنی اسرائیل سے مسجدوں میں جانے کی پابندی اضطرار کی بنا پر ختم کر دی گئی، البتہ نماز پھر بھی ہر جگہ پڑھنے کی اجازت نہیں ملی، بلکہ اپنے گھر قبلہ رخ بنا کر ان میں چھپ کر نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام گھر قبلہ رخ بنانے کا حکم ہوا مگر نماز کے لیے چند گھر مخصوص تھے، جن کا صرف مسلمانوں کو علم تھا، اگر کسی گھر کا راز فاش ہو جاتا تو دوسرا کوئی گھر مقرر کر لیا جاتا اور تمام گھروں کے قبلہ رخ ہونے کی وجہ سے کوئی دشواری پیش نہ آتی۔ دلیل اس کی ایک تو یہ ہے کہ فرمایا : ﴿اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوْتًا ﴾’’ بُيُوْتًا ‘‘ یعنی پوری قوم کے لیے چند گھروں کو ٹھکانا مقرر کر لو۔ دوسری یہ کہ حکم تھا : ﴿ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ ﴾ اور اقامت صلوٰۃ صفوں کی درستگی کے بغیر نہیں ہوتی جو جماعت کی صورت ہی میں بنتی ہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( سَوُّوْا صُفُوْفَكُمْ فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصُّفُوْفِ مِنْ إِقَامَةِ الصَّلاَةِ )) [ بخاری، الأذان، باب إقامۃ الصف من تمام الصلاۃ : ۷۲۳، عن أنس رضی اللّٰہ عنہ ] ’’اپنی صفیں برابر کرو، کیونکہ صفیں برابر کرنا اقامت صلاۃ کا حصہ ہے‘‘ تیسری یہ کہ بنی اسرائیل کو بھی ہماری امت کی طرح جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم تھا (جب کوئی عذر نہ ہو) فرمایا: ﴿ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۴۳] ’’اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘ 2۔ وَ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ : ایسے مشکل حالات میں بھی بنی اسرائیل کو نماز کی معافی نہیں ملی، بلکہ اسے خاص طور پر قائم کرنے کا حکم ہوا، کیونکہ صبر اور نماز ہی مشکل کے وقت اللہ تعالیٰ سے مدد حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں، فرمایا : ﴿ وَ اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ ﴾ [البقرۃ : ۴۵ ] ’’اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو۔‘‘ اور نماز ہی روزانہ کئی مرتبہ بندے کا تعلق اپنے رب سے جوڑتی اور اس سے ہم کلام ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ زکوٰۃ مال ہونے کی صورت میں سال میں صرف ایک مرتبہ فرض ہے، روزے بھی سال میں کچھ دن فرض ہیں، حج استطاعت کی صورت میں عمر بھر میں ایک دفعہ فرض ہے، یہ نماز ہی ہے کہ آدمی کو جب بھی کوئی مشکل پیش آئے تو وہ اس کے ذریعے سے اپنے رب سے تار جوڑ سکتا ہے اور اس کے ساتھ آدمی کو پانچ دفعہ تو ضرور ہی اپنے مالک کے حضور پیش ہو کر فریاد کرنے کا موقع ملتا ہے۔ 3۔ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ : یعنی اہل ایمان کو خوش خبری دو، اس خوش خبری کا ذکر سورۂ اعراف (۱۲۹) میں ہے کہ تمھارے دشمنوں کی ہلاکت اور تمھاری آزادی کے دن قریب ہی ہیں۔