إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
مسلمانوں سے ان کی جانیں اور مال اللہ نے بہشت کے بدلے خرید کی ہیں ، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں ، پھر مارتے اور مرتے ہیں ، یہ سچا وعدہ ہے جو اللہ پر لازم ہے ، اور توریت اور انجیل اور قرآن میں لکھا ہے ۔ اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کا پورا کرنے والا کون ہے ، سو اپنی اس بیع پر جو تم نے اس سے کی ، خوشی کرو ، اور یہ بڑی مراد پانی ہے (ف ١) ۔
1۔ اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُمْ....: ’’ فَاسْتَبْشِرُوْا‘‘ ’’اَلْاِسْتِبْشَارُ‘‘ ایسی زبردست خوشی جس کے اثرات بشرے یعنی چہرے پر بھی ظاہر ہوں۔ سین اور تاء کے اضافے سے بشریٰ، یعنی خوش خبری کے مفہوم میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا کہ جہاد کی اس سے بہتر اور اس سے بڑھ کر مؤثر ترغیب آپ کسی آیت میں نہیں پائیں گے، کیونکہ اسے ایک سودے اور معاہدے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے جو سودا رب العزت کے ساتھ ہے۔ سودے کا سامان مومنوں کی جانیں اور مال ہیں اور قیمت اس کی اتنی قیمتی اور بے مثال ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی، نہ کسی کان نے سنی اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال تک آیا۔ یہ سودا اور معاہدہ صرف اس پر نہیں کہ وہ قتل کیے جائیں گے تو قیمت ملے گی، بلکہ اللہ کے دین کی نصرت اور اس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے وہ کفار کو قتل کریں گے تب بھی یہی قیمت ملے گی۔ پھر اس معاہدے کی باقاعدہ تسجیل (رجسٹری) آسمانی کتابوں تورات، انجیل اور قرآن میں کی گئی، اس سے بڑھ کر سودے کی پختگی کا تحریری ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے، پھر اسے اللہ تعالیٰ کا سچا پکا عہد قرار دے کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر اپنا عہد کون پورا کرنے والا ہے۔ سو اس کا ادھار دوسرے تمام نقدوں سے بڑھ کر ہے، پھر اس کا ادھار وعدہ جنت یقینی ہے۔ اس آیت کے علاوہ دیکھیے سورۂ حدید (۲۱)، سورۂ صف (۱۰ تا ۱۲) اور سورۂ توبہ (۲۰ تا ۲۲) اور اگر کچھ زندگی باقی ہے تو وہ بھی اس کے بے پایاں انعام سے خالی نہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے ضمانت دی ہے کہ جو اس کے راستے میں جہاد کرے اور اسے اس کے راستے میں نکالنے والی چیز اس کی راہ میں جہاد اور اس کی باتوں کو سچا یقین کرنے کے سوا کچھ نہ ہو تو وہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا، یا اسے اس کے گھر میں اجر یا غنیمت سمیت واپس لائے گا جس گھر سے وہ نکل کر گیا تھا۔‘‘ [ بخاری، فرض الخمس، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم : أحلت لکم الغنائم : ۳۱۲۳ ] مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی مجاہدین ایران میں جہاد کے لیے گئے تو کسریٰ کے جرنیل نے مسلمانوں کے سفیر مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا : ’’تم لوگ کیا ہو؟‘‘ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کا تعارف کرانے کے بعد فرمایا : ’’ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہمارے رب کا پیغام پہنچایا کہ ہم میں سے جو قتل کر دیا جائے گا وہ جنت کی ایسی نعمتوں میں جائے گا جو کبھی کسی کے دیکھنے میں نہیں آئیں اور جو ہم میں سے باقی رہے گا وہ تمھاری گردنوں کا مالک بنے گا۔‘‘ [ بخاری، الجزیۃ والموادعۃ، باب الجزیۃ والموادعۃ....: ۳۱۵۹ ] جہاد کے بے شمار فضائل کے لیے کتب احادیث ملاحظہ فرمائیں۔ 2۔ وَ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ: اس میں حصر کے لیے ’’هُوَ ‘‘ ضمیر لا کر اور خبر ’’الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ‘‘ پر الف لام لا کر واضح فرمایا کہ فوزِ عظیم ہے تو بس یہ ہے، اس کے سوا کوئی کامیابی عظیم نہیں، بلکہ معمولی اور بے وقعت ہے۔ 3۔ حسن بصری رحمہ اللہ سے بیان کیا جاتا ہے کہ انھوں نے فرمایا، اللہ تعالیٰ کا کرم دیکھیے، جانیں ہیں تو اسی نے دیں، اموال ہیں تو اس نے عطا فرمائے، پھر وہ ہم ہی سے سودا کر رہا ہے کہ ہم اس کے راستے میں خرچ کریں گے اور وہ ہمیں اس کے بدلے جنت میں داخل ہی نہیں کرے گا بلکہ وہ اسے ہماری ملکیت بنا دے گا۔ ’’ لَهُمُ ‘‘ پہلے آنے سے حصر کا معنی حاصل ہوا ’’بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ‘‘ کہ جنت انھی کی ہے۔