وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور دوسرے لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کو مان لیا ، اور اپنے بھلے اور برے کام کو ملا دیا شاید اللہ انہیں معاف کرے ، بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے (ف ٢) ۔
وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ....: ”وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ“ والی آیت میں مسلمانوں کے بہترین لوگوں کا ذکر ہے اور ﴿ وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ﴾ میں مسلمان کہلانے والے بدترین لوگوں کا ذکر ہے، جو آگ کے درک اسفل (سب سے نچلے حصے) کا ایندھن بننے والے ہیں اور اب عام مسلمانوں کا ذکر ہے جن کے صالح اعمال بھی ہیں اور کچھ اعمال سیئہ (برے کام) بھی ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ مفسرین نے یہاں ابولبابہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کا تذکرہ فرمایا کہ وہ مخلص مسلمان ہونے کے باوجود تبوک پر نہ جا سکے تو انھوں نے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خود کھولیں گے تو ہم سمجھیں گے کہ ہماری توبہ قبول ہو گئی۔ آخر کار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے انھیں اپنے ہاتھ سے کھولا اور پہلے ان کا پیش کردہ صدقہ قبول نہیں کیا تھا پھر اگلی آیت ﴿ خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً ﴾ اتری تو ان کا صدقہ بھی قبول فرمایا۔ اس مفہوم کی اکثر روایات مرسل یا کمزور ہیں، البتہ ’’الاستيعاب في بيان الأسباب‘‘ میں ابن عباس اور جابر رضی اللہ عنھم کی ایک روایت کو حسن قرار دیا گیا ہے، جس میں ابولبابہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے پیچھے رہ جانے پر اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھنے اور آخر کار اللہ کے حکم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انھیں اپنے ہاتھ سے کھولنے کا اور ﴿ وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ ﴾ سے ﴿ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ﴾ تک آیات اترنے کا ذکر ہے۔ (واللہ اعلم) البتہ اس بات میں تو کوئی شبہ ہی نہیں کہ جس طرح ﴿ وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ ﴾ والی آیت میں مذکور افراد ﴿ وَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ ﴾ میں قیامت تک صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے تمام محسن پیروکار شامل ہیں، اسی طرح یہ آیت قیامت تک آنے والے تمام گناہ گار مخلص مسلمانوں کو شامل ہے، جنھوں نے اپنے اچھے اعمال کے ساتھ کچھ دوسرے برے اعمال بھی ملا جلا رکھے ہیں۔ سند کے لحاظ سے اس کی صحیح ترین تفسیر وہ ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں اپنی صحیح میں درج فرمائی ہے کہ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’آج رات دو آنے والے میرے پاس آئے، انھوں نے مجھے اٹھایا، پھر وہ مجھے ایک ایسے شہر میں لے گئے جو سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنایا گیا تھا، وہاں میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کا نصف بدن سب سے زیادہ خوبصورت شخص کی طرح تھا جو تم دیکھنے والے ہو اور نصف اس بدصورت ترین شخص کی طرح تھا جو تم دیکھنے والے ہو۔ دونوں فرشتوں نے ان لوگوں سے کہا، اس نہر کے اندر داخل ہو جاؤ، وہ اس میں داخل ہو گئے، پھر ہماری طرف واپس آئے تو ان سے وہ بدصورتی جا چکی تھی اور وہ بہترین صورت میں بدل چکے تھے۔ دونوں (فرشتوں) نے مجھ سے کہا، یہ جنت عدن ہے اور وہ تمھارا گھر ہے۔ دونوں نے کہا کہ وہ لوگ جن کا نصف حصہ خوبصورت اور نصف بدصورت تھا (( فَاِنَّهُمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا تَجَاوَزَ اللّٰهُ عَنْهُمْ )) تو یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے نیک عمل کیے اور ان کے ساتھ برے عمل بھی ملا جلا دیے، تو اللہ تعالیٰ نے ان سے درگزر فرما دیا۔‘‘ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : ﴿ وآخرون اعترفوا بذنوبہم﴾ : ۴۶۷۴ ]