وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
اور مہاجرین اور انصار میں سے جنہوں نے سبقت کی ، اور اول رہے ، اور جو لوگ نیکی سے ان کے بعد آئے ، اللہ ان سے راضی ہوا ، اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ، اور ان کے لئے باغ تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، ہمیشہ وہاں رہیں گے ، یہی بڑی مراد ملنی ہے (ف ٢) ۔
1۔ وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ....: مدینہ کے اندر رہنے والے منافقین کے ذکر کے بعد اس کے اردگرد رہنے والے بعض اعراب منافقین کا ذکر فرمایا، پھر بعض اعراب مومنوں کے اخلاص کا ذکر فرمایا اور انھیں اپنی رحمت کی خوش خبری سنائی، اب ان سے اعلیٰ مراتب والے خوش نصیبوں کا تذکرہ ہے۔ چنانچہ اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے تین گروہوں کی تعریف فرمائی ہے، پہلا گروہ مہاجرین میں سے سبقت کرنے والے پہلے لوگ۔ ان کی تعیین میں مفسرین سے مختلف اقوال منقول ہیں، وہ لوگ جنھوں نے مکہ میں اپنی جائدادیں، گھر بار اور کاروبار چھوڑ کر ہجرت کی، بعض نے دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھنے والے، بعض نے بدری صحابہ، بعض نے بیعت رضوان تک والے اور بعض نے فتح مکہ تک والے صحابہ مراد لیے ہیں۔ بہرحال ان سب کو دوسروں پر یقیناً ایک قسم کی سبقت حاصل ہے۔ دوسرا گروہ انصار میں سے سابقون وہ ہیں جنھوں نے مدینہ سے آکر ۱۱ نبوی میں مکہ میں حج کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر پہلی بیعت عقبہ کی۔ یہ سات افراد تھے، دوسری بیعت عقبہ جو ۱۲ نبوی میں ہوئی اس میں ستر (۷۰) آدمی اور دو خواتین شامل تھیں، پھر وہ جو ان کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ ہجرت سے پہلے مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے، پھر وہ سب اہل مدینہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ آمد کے بعد مسلمان ہوئے، ان سب کو درجہ بدرجہ سبقت حاصل ہے۔ تیسرا گروہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے سابقین مہاجرین و انصار کے بعد ایمان لاکر ہجرت یا نصرت کا شرف حاصل کیا، جیسا کہ سورۂ انفال میں مہاجرین و انصار کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا : ﴿ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا مَعَكُمْ ﴾ [الأنفال : ۷۵ ] ’’اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمھارے ساتھ مل کر جہاد کیا۔‘‘ گویا صلح حدیبیہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایمان لانے والے اور اس پر استقامت اختیار کرنے والے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اس تیسرے گروہ میں شامل ہیں۔ 2۔ آلوسی صاحبِ روح المعانی نے فرمایا : ’’بہت سے مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ ﴿ وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَ الْاَنْصَارِ ﴾ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیں، کیونکہ انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے شرف کی بنا پر بعد والے تمام لوگوں پر سبقت حاصل ہے، جو پھر کسی کو نصیب نہ ہو سکی اور ﴿ وَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ ﴾ (اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے) سے قیامت تک آنے والے وہ تمام مسلمان مراد ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صرف قرآن اور سنت رسول پر اخلاص کے ساتھ عمل کرتے رہے۔‘‘ کیونکہ دوسرے کسی بھی فرقے کے لوگ اپنے امام کی تقلید کا دعویٰ تو کر سکتے ہیں، مگر تمام صحابہ کی اچھے طریقے اور نیکی سے پیروی کا دعویٰ نہیں کر سکتے، کیونکہ صحابہ کا عمل صرف قرآن و سنت پر تھا۔ اس وقت نہ فرقے تھے نہ وہ لوگ جن کے نام پر فرقے بنے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تفسیر بھی بالکل درست ہے، البتہ اس آیت سے صرف اصطلاحی تابعین مراد لینا کہ وہ لوگ جنھوں نے ایمان کی حالت میں صحابہ کی زیارت کی ہو ہر گز درست نہیں، کیونکہ احسان کے ساتھ مہاجرین و انصار کے پیچھے چلنے والے صرف وہی نہیں بلکہ قیامت تک آنے والے سبھی مسلمان ہیں جن کے اخلاص اور قول و عمل میں احسان پایا جاتا ہے۔ ہاں اصطلاحی تابعین بدرجۂ اولی ان میں شامل ہیں۔ 3۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سب سے افضل ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں جو اسلام میں بھی اول ہیں اور ہجرت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں، پھر بالترتیب دوسرے خلفاء رضی اللہ عنھم کے درجے ہیں، ان کے بعد باقی عشرہ مبشرہ جن میں طلحہ، زبیر، سعد بن ابی وقاص، سعید بن زید، عبد الرحمن بن عوف اور ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنھم شامل ہیں، پھر بدری اور عقبہ والے صحابہ کا درجہ ہے اور ان کے بعد جو بیعت رضوان میں شریک ہوئے، پھر جو فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہوئے اور ہجرت و نصرت کی۔ صحابہ کی فضیلت کی اس ترتیب پر اہل السنۃ والجماعہ متفق ہیں۔ 4۔ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ: چونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور جنت میں داخلے کی خو ش خبری کی جو وجہ بیان ہوئی ہے، یعنی ہجرت و نصرت وہ دائمی ہے۔ کوئی شخص ان سے یہ اعزاز نہیں چھین سکتا۔ اس لیے اس پر ملنے والی بشارت بھی دائمی اور ہمیشہ کے لیے ہے، لہٰذا ان صحابہ میں سے (العیاذ باللہ) کسی کے مرتد ہونے کا تصور بھی نہیں ہو سکتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اپنی رضا اور جنت کی خوش خبری دے ہی نہیں سکتا جس کے متعلق اسے علم ہو کہ اس نے مرتد ہو جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو جس طرح گزشتہ اور موجودہ حالات کا مکمل علم ہے آئندہ آنے والی ہر بات کا بھی اسی طرح مکمل علم ہے۔ وہ کفر پر مرنے والوں کو جنت اور رضا کی بشارت کیسے دے سکتا ہے؟ پھر کتنے بدبخت اور لعنتی ہیں وہ لوگ جو ان حضرات کے خلاف عموماً اور ان میں سے افضل ترین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین ہستیوں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات امہات المومنین رضی اللہ عنھن جو ہجرت و نصرت کا شرف بھی رکھتی ہیں، ان کے خلاف زبان درازی، سب و شتم، تہمت تراشی اور تبرا بازی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں اور ان کو برے القاب سے یاد کرتے ہیں۔