وَمِنْهُم مَّن يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِن لَّمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ
اور ان میں کوئی ہے ‘ جو تقسیم زکوۃ کی بابت تجھے عیب لگاتا ہے ، سو اگر اس میں سے انہیں ملے تو راضی ہیں ، اور جو انہیں اس میں سے نہ ملے ، تو فورا ہی ناراض ہیں (ف ١) ۔
وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّلْمِزُكَ فِي الصَّدَقٰتِ ....: ’’ لَمَزَ (ض) ‘‘ سامنے عیب نکالنا، طعن کرنا، یہ بھی منافقین کا شیوہ تھا کہ غنائم و صدقات کی تقسیم میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن کرنے اور عیب لگانے سے باز نہیں آتے تھے۔ یہ نہیں کہ صرف صدقات کی تقسیم میں طعن کرتے ہوں، بلکہ یہ ان کے لگائے ہوئے الزامات میں سے ایک تھا، چنانچہ آپ غنائم یا صدقات تقسیم فرماتے تو کہتے دیکھو کیسی خویش پروری اور دوست نوازی ہو رہی ہے، انصاف نہیں ہو رہا۔ مطلب یہ کہ ہمیں کیوں نہیں ملا، ان کے ہاں انصاف کا پیمانہ بس اتنا تھا کہ انھیں مل جائے تو وہ خوش ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم زبردست انصاف کرنے والے ہیں، لیکن اگر اسلام کی مصلحت کے پیش نظر یا کسی دوسرے شخص کے زیادہ ضرورت مند ہونے کی وجہ سے انھیں کچھ نہ مل سکے تو وہ سخت ناراض اور ان کے بقول نبی صلی اللہ علیہ وسلم عدل نہ کرنے والے۔ (نعوذ بالله ) ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ تقسیم فرما رہے تھے کہ ذوالخویصرہ تمیمی آیا، کہنے لگا : ’’یا رسول اللہ! عدل کیجیے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تمھیں ویل ہو، جب میں عدل نہیں کروں گا تو اور کون عدل کرے گا؟‘‘ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’اجازت دیجیے میں اس کی گردن اتار دوں۔‘‘ فرمایا : ’’رہنے دو، اس کے کچھ ساتھی ہیں (اور ہوں گے) کہ تم میں سے ایک اپنی نماز ان کی نماز کے مقابلے میں اور اپنے روزے ان کے روزوں کے مقابلے میں حقیر سمجھے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔‘‘ ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کے بارے میں یہ آیت اتری : ﴿ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّلْمِزُكَ فِي الصَّدَقٰتِ﴾ [ بخاری، المناقب، باب علامات النبوۃ فی الإسلام : ۳۶۱۰ ] حنین کی غنیمتوں کی تقسیم کے وقت اور دوسرے کئی موقعوں پر بھی ان لوگوں نے اس قسم کی گستاخیاں کیں۔ خالد بن ولید اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما جیسے صحابہ نے ان کے قتل کی اجازت مانگی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، رہنے دو۔ بعض موقعوں پر جب انھوں نے مہاجرین و انصار کو بھڑکا کر ایک دوسرے سے لڑا دیا اور آپ نے صلح کروا دی، اس وقت بھی عبد اللہ بن ابی نے اور اس کے ساتھیوں نے بہت بڑی گستاخی کی، جس کا ذکر سورۂ منافقون میں ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ کے اجازت مانگنے کے باوجود آپ نے ان کے قتل کی اجازت نہیں دی، یہ کہہ کر کہ لوگ کہیں گے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں۔ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : ﴿سواء علیھم أستغفرت لھم ﴾ : ۴۹۰۵ ]