قُلْ أَنفِقُوا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا لَّن يُتَقَبَّلَ مِنكُمْ ۖ إِنَّكُمْ كُنتُمْ قَوْمًا فَاسِقِينَ
تو کہہ تم اپنے مال خوشی سے خرچ کرو یا ناخوشی سے خدا تم سے ہرگز قبول نہ کرے گا کہ تم فاسق لوگ ہو ،
1۔ قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا....: اوپر کی آیت میں بتایا کہ منافقین کے لیے بہرحال عذاب ہے، اب اس آیت میں فرمایا کہ اس عذاب سے کسی طور وہ نجات نہیں پا سکتے، کیونکہ آخرت میں ان کی کوئی نیکی قبول نہیں ہے۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر بعض منافقین ایسے بھی تھے جو کہتے تھے کہ ہمیں ساتھ جانے سے معافی دی جائے، اس کے عوض ہم مالی اعانت پر تیار ہیں۔ وہ یہ بات اس لیے کہتے تھے کہ کہیں مسلمانوں میں بالکل ہی بدنام ہو کر نہ رہ جائیں، انھی کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا کہ جن لوگوں کے دلوں میں نفاق اور اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی بھری ہو ان کی مالی امداد کسی طور قبول نہیں، خواہ خوشی سے دیں یا مجبوراً۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :’’جد بن قیس نے مال خرچ کرنے کی بابت جو کہا تھا اس کا جواب یہ ہے کہ بے اعتقاد کا مال قبول نہیں۔‘‘ (موضح) 2۔ اِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِيْنَ: عمل کی قبولیت کے لیے تقویٰ شرط ہے جو تم میں ہے ہی نہیں، فرمایا : ﴿اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ﴾ [ المائدۃ : ۲۷ ] ’’بے شک اللہ متقی لوگوں ہی سے قبول کرتا ہے۔‘‘ اور دیکھیے سورۂ حج (۳۷) اور بقرہ ( ۲۶۵)۔