لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوكَ وَلَٰكِن بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ ۚ وَسَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنفُسَهُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ
اگر کچھ مال نزدیک ہوتا ، اور سفر ہلکا ہوتا ، تو ضرور تیرے ساتھ چلتے ، لیکن مسافت بعید نظر آتی ہے ، اور اللہ کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم چل سکتے ، تو ضرور تمہارے ساتھ نکلتے (جھوٹی قسموں سے) اپنی جانیں ہلاک کرتے ہیں ‘ اور خدا جانتا ہے ، کہ وہ جھوٹے ہیں۔ (ف ١)
لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيْبًا....: یہ آیت غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ ’’عَرَضًا ‘‘ دنیا کا وہ سازو سامان جو انسان کی خواہشوں کے پیش نظر رہتا ہے۔ ’’قَرِيْبًا ‘‘ جس کا حصول بالکل آسان ہو۔ ’’قَاصِدًا ‘‘ درمیانہ، یعنی جس میں شدید مشقت درپیش نہ ہوتی۔ ’’الشُّقَّةُ ‘‘ وہ فاصلہ جو نہایت مشقت اور تھکن سے طے ہو۔ یہ مشقت سے مشتق ہے۔ ابو عبیدہ نے فرمایا ’’الشُّقَّةُ ‘‘ کا معنی ارضِ بعید کا سفر ہے، یعنی اگر آسانی سے مالِ غنیمت ملنے کی توقع ہوتی اور سفر بہت لمبا نہ ہوتا، جس کا راستہ بھی نہایت کٹھن تھا تو یہ لوگ ضرور آپ کے ساتھ جاتے۔ مگر خالص فی سبیل اللہ جہاد جس میں آسانی سے حصولِ غنیمت کے بجائے مال و جان کی قربانی، بعید سفر اور شہادت کا واضح امکان سامنے ہو، منافق کے لیے نہایت دشوار ہے۔