إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ ۖ يُضَلُّ بِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا يُحِلُّونَهُ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُ عَامًا لِّيُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فَيُحِلُّوا مَا حَرَّمَ اللَّهُ ۚ زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمَالِهِمْ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
مہینہ آگے پیچھے کرلینا (عہد) کفر کی زیادتی ہے کافر اس سے گمراہی میں پڑتے ہیں ، ایک سال اسے حلال سمجھتے اور دوسرے سال اسی حرام ٹھہراتے ہیں ، تاکہ اللہ کے حرام مہینوں کی شمار پوری کریں ‘ اور خدا کے حرام کئے ہوئے کہ حلال کریں ‘ ان کے برے اعمال ان کے لئے آراستہ کئے گئے ہیں ‘ اور اللہ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا (ف ١) ۔
اِنَّمَا النَّسِيْٓءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ....: ’’النَّسِيْٓءُ ‘‘ یہ ’’فَعِيْلٌ‘‘ کے وزن پر مصدر ہے۔ ’’نَسَأَ الشَّيْءَ‘‘ کا معنی ہے اس نے فلاں چیز کو مؤخر (پیچھے) کر دیا۔ اونٹوں کو حوض سے ہٹایا جائے تو کہا جاتا ہے : ’’نَسَأْتُ الْاِبِلَ عَنِ الْحَوْضِ‘‘ ’’میں نے اونٹوں کو حوض سے پیچھے ہٹا دیا۔‘‘ مشرکین ’’نسیٔ‘‘ دو طرح سے کرتے تھے، ایک تو وہ جو اوپر حاشیہ(۴) میں بیان ہوا ہے، دوسرا یہ کہ وہ لوگ جنگ و جدل اور لوٹ مار کے عادی تھے، مسلسل تین ماہ اس کام سے باز رہنا ان کے لیے مشکل تھا، اس لیے وہ حرمت والے مہینے، مثلاً محرم کو حلال قرار دے کر اس سے اگلے ماہ صفر کو حرمت والا مقرر کر لیتے۔ ان کے ہاں بس چار ماہ حرمت والے پورے کرنے ضروری تھے، رہی ان کی تعیین تو وہ انھوں نے اپنے اختیار میں لے رکھی تھی، اسی کو اللہ تعالیٰ نے کفر میں زیادتی قرار دیا، کیوں کہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دینا تو اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے، پھر اللہ تعالیٰ کے ہاں عبادات کے اوقات جو قمری حساب سے بدل بدل کر ہر موسم میں آتے رہتے تھے انھوں نے ان کے اصل اوقات سے ہٹا دیے تھے، یہ بھی کفر پر مزید کفر تھا۔ پھر وہ اپنے اس عمل پر خوش تھے اور شیطان نے ان کے لیے ان کے برے اعمال بھی خوش نما بنا دیے تھے۔ ﴿وَ اللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ ﴾ یعنی اب جو حق کو چھپانے اور اس سے انکار پر تل ہی جائے تو اللہ تعالیٰ اسے سیدھے راستے پر کیوں لائے گا؟ کفر کا معنی چھپانا اور انکار دونوں آتے ہیں۔