ثُمَّ يَتُوبُ اللَّهُ مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
پھر اس کے بعد اللہ جس پر چاہے رحم کرے ، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔
1۔ ثُمَّ يَتُوْبُ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ: چنانچہ غزوۂ حنین کے تقریباً بیس روز بعد ہوازن کے بقیہ لوگ مسلمان ہو کر جعرانہ کے مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان لوگوں سے رضاعی رشتہ بھی تھا، کیونکہ آپ کی رضاعی ماں حلیمہ رضی اللہ عنہا انھی سے تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو مسلمان ہونے کی توفیق بخشی، یہ اپنے اموال اور قیدی واپس لینے کی درخواست لے کر آئے۔ آپ نے فرمایا : ’’تم نے آنے میں دیر کر دی، میں نے غنیمت تقسیم کرنے سے پہلے تمھارا بہت انتظار کیا، اب دیکھ رہے ہو یہ لشکر میرے ساتھ ہے، اب ایک چیز کا انتخاب کر لو، یا اپنے اموال لے لو یا قیدی۔‘‘ انھوں نے کہا، آپ ہمارے قیدی آزاد کر دیں۔ چنانچہ آپ نے ان کے قیدی جو ابن کثیر کے مطابق (عورتیں بچے ملا کر) چھ ہزار تھے، سب مسلمانوں کو ترغیب دلا کر آزاد کر دیے، البتہ مال غنیمت واپس نہیں کیا۔ [ بخاری، المغازی، باب قول اللہ تعالٰی : ویوم حنین....: ۴۳۱۸، ۴۳۱۹ ] 2۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عرب کے غزوات کاآغاز بدر سے اور خاتمہ حنین سے کیا، اس لیے یہاں دونوں کو یکے بعد دیگرے ملا کر ذکر فرمایا، ان دونوں کے درمیان سات سال کا فاصلہ تھا، اس کے ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے مقابلے میں عرب کی جنگ کا انگارا بجھ گیا۔ پہلی جنگ نے انھیں خوف زدہ کرکے ان کی قوت توڑ دی تھی، آخری جنگ نے ان کی قوت کا خاتمہ کر دیا، ان کا اسلحہ بے اثر کر دیا اور ان کی جماعت کو اس طرح پیسا کہ ان کے لیے اسلام میں داخل ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ ادھر اس آخری جنگ میں مسلمانوں کو یہ سبق بھی خوب یاد کروا دیا کہ جنگ میں فتح تمھاری کثرت یا اسلحہ کی برتری کی وجہ سے نہیں بلکہ دین کی برکت اور اللہ کی مدد سے حاصل ہوتی ہے۔