وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
اور اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تو بھی اس کی طرف جھک اور خدا پر بھروسا رکھا وہ سنتا جانتا ہے (ف ١) ۔
وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا....: بھر پور جنگی تیاری اور جہاد جاری رکھنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ دشمن صلح کی طرف مائل ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے صلح کی طرف مائل ہونے والوں سے صلح کر لینے کا حکم دیا، کیونکہ اسلامی جہاد کا مقصد اللہ کے دین کا غلبہ ہے، ہر حال میں غیر مسلموں کو تہ تیغ کرنا نہیں، نہ انھیں زبردستی مسلمان بنانا ہے۔ اس صلح کے نتیجے میں بہت سی دینی اور دنیوی برکات حاصل ہوں گی، مسلمانوں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے کفار اسلام سے واقف ہوں گے، اسلام کی اشاعت بڑھے گی، جس کا نتیجہ اسلام کا غلبہ ہو گا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبیہ کو ’’فتح مبین‘‘ قرار دیا۔ بعض اوقات جزیے پر صلح ہو گی جو مسلمانوں کی مالی قوت میں اضافے کا باعث ہو گی اور دنیا میں جنگ کے ماحول کے بجائے امن و اطمینان کا دور دورہ ہو گا جو صرف اسلام کے غلبے کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ محض ہمت ہار کر بزدلی کی وجہ سے خود دشمن کو صلح کی پیش کش اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ دیکھیے سورۂ محمد(۳۵) صلح کی صورت میں کفار کی عہد شکنی یا سازشوں کے خطرے کی پروا نہ کریں، بلکہ اللہ تعالیٰ پر بھروسا رکھیں، وہ سب کچھ سن رہا ہے، دیکھ رہا ہے۔