إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّهِ الَّذِينَ كَفَرُوا فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
خدا کے نزدیک سب جانداروں میں بدتر کافر ہیں ، جو ایمان نہیں لاتے (ف ١) ۔
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ....: اوپر کی آیت میں جب تمام کفار کا یہ وصف بیان فرمایا کہ وہ ظالم ہیں تو اب یہاں کفار کی بعض خاص شرارتوں کا ذکر فرمایا۔ ’’ وَ هُمْ لَا يَتَّقُوْنَ ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ سے نہیں ڈرتے، یا وہ اپنی بد عہدی کے انجام سے نہیں ڈرتے۔ ان سے مراد خاص طور پر مدینہ منورہ کے یہودی ہیں، جن سے مدینہ منورہ پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے ہمسایوں کی طرح رہنے اور باہمی تعاون کا معاہدہ کیا تھا، لیکن اسلام کی بڑھتی ہوئی قوت انھیں ایک نظر نہ بھاتی تھی، چنانچہ کبھی وہ اوس و خزرج کے درمیان جاہلی عصبیت ابھار کر ان کو آپس میں لڑانے کی کوشش کرتے اور کبھی اسلام کے دشمنوں کی ہتھیاروں سے مدد کر کے معاہدے کی بار بار خلاف ورزی کرتے اور جب ان سے کہا جاتا تو کہہ دیتے کہ ہمیں معاہدہ یاد نہیں رہا تھا، لیکن جوں ہی موقع ملتا پھر کوئی ایسی حرکت کر گزرتے جو معاہدے کے خلاف ہوتی، حتیٰ کہ اس معاہدے کے ہوتے ہوئے ان کا سردار کعب بن اشرف ( جو بدر میں قریش کی شکست سے انتہائی سیخ پا ہوا تھا) مکہ پہنچا اور وہاں مقتولین کفارِ بدر کے ہیجان انگیز مرثیے پڑھ کر قریش کے نوجوانوں کو مسلمانوں سے انتقام لینے کا جوش دلاتا رہا۔ ایسے ہی لوگ ہیں جنھیں ’’شَرَّ الدَّوَآبِّ ‘‘ (بدترین جانور) فرمایا ہے۔ (ابن کثیر) یہاں انھیں ’’شَرَّ النَّاسِ‘‘ (سب لوگوں سے برے) کے بجائے ’’شَرَّ الدَّوَآبِّ ‘‘ کہا گیا ہے، اگرچہ ’’الدَّوَآبِّ ‘‘ میں انسان بھی آ جاتے ہیں، کیونکہ وہ بھی چلتے پھرتے ہیں، مگر عام طور پر یہ لفظ انسان کے بجائے جانوروں پر بولا جاتا ہے، گویا کفر کی وجہ سے یہ لوگ انسانیت کے شرف سے محروم ہو چکے ہیں۔ دیکھیے سورۂ بینہ (۶)، سورۂ اعراف (۱۷۹) اور سورۂ فرقان (۴۴)۔