يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ ۖ قُلِ الْأَنفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۖ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
مال غنیمت (ف ٢) کی بابت تجھ سے پوچھتے ہیں تو کہ مال غنیمت اللہ کا اور رسول کا ہے ، سو تم اللہ سے ڈرو اور آپس میں صلح کرو ، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو ، اگر مومن ہو ۔
1۔ يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ: ’’الْاَنْفَالِ ‘‘یہ’’نَفَلٌ‘‘ (نون اور فاء کے فتح کے ساتھ) کی جمع ہے، جیسا کہ ’’فَرَسٌ‘‘ کی جمع ’’اَفْرَاسٌ‘‘ ہے۔ جس کا معنی زائد چیز ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ مِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ﴾ [ بنی إسرائیل : ۷۹ ] ’’اور رات کے کچھ حصے میں پھر اس کے ساتھ بیدار رہ، اس حال میں کہ تیرے لیے زائد ہے۔‘‘ یعنی رات کا قیام فرض نمازوں سے زائد ہے۔ یہ لفظ کئی معنوں میں آتا ہے: (1) مال غنیمت، کیونکہ جہاد کا اصل مقصد تو ثواب اور حصولِ جنت ہے، غنیمت تو ایک زائد چیز ہے۔ شاید اسی لیے پہلی امتوں کے لیے غنیمت حلال نہیں تھی، اس امت کو ثواب پر مزید غنیمت بھی حلال کر دی گئی۔ (2) امیر کسی خاص کارنامے پر غنیمت کے حصے سے زائد کسی انعام کا اعلان کر دے، یا دینا چاہے تو یہ بھی نفل ہے۔ (3) مقتول کے پاس جو بھی سامان اسلحہ یا سواری وغیرہ ہو وہ قاتل کو دیا جائے، اسے ’’سلب‘‘ کہتے ہیں، یہ بھی نفل ہے۔ (4) عام جنگ کے علاوہ کچھ دستے جنگ کے لیے جاتے ہوئے یا واپسی پر کسی بستی پر حملے کے لیے بھیجے جائیں اور وہ غنیمت لے کر آئیں تو وہ پورے لشکر کے لیے ہوگی، مگر اس دستے کو مجموعی غنیمت میں سے الگ زائد حصہ بھی دیا جائے گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاتے وقت چوتھا حصہ اور واپسی پر تیسرا حصہ عطا فرماتے تھے۔ (5) امیر غنیمت کی تقسیم سے پہلے کوئی ایک چیز اپنے لیے چن لے، مثلاً کوئی اسلحہ یا سواری، یا لونڈی وغیرہ، اسے ’’صفی‘‘ بھی کہتے تھے۔ زمانۂ جاہلیت میں معمول تھا کہ جنگ میں جو شخص جو کچھ لوٹ لیتا اسی کا ہوتا۔ اسلام میں سب سے پہلا عظیم الشان معرکہ بدر واقع ہوا تو ابھی تک کفار سے حاصل ہونے والے مال کی تقسیم کا طریقہ مقرر نہیں ہوا تھا۔ بدر میں جب بہت سا مالِ غنیمت حاصل ہوا تو یہ مسئلہ پیش آیا۔ چنانچہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو میں آپ کے ساتھ بدر میں شریک ہوا۔ لوگوں کا باہمی مقابلہ ہوا، اللہ تعالیٰ نے دشمن کو شکست دی، تو ایک گروہ انھیں ہزیمت دیتے اور قتل کرتے ہوئے ان کے پیچھے چل پڑا، ایک گروہ لشکر گاہ پر متوجہ ہو کر اس کی حفاظت اور مال جمع کرنے لگ گیا اور ایک گروہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد گھیرا ڈالے رکھا کہ دشمن آپ کے متعلق کسی غفلت سے فائدہ نہ اٹھا لے۔ آخر سب لوگ واپس آ کر جمع ہوئے تو جنھوں نے غنیمتیں جمع کی تھیں، کہنے لگے، یہ ہم نے جمع کی ہیں، کسی اور کا ان میں کوئی حصہ نہیں، جو دشمن کے پیچھے گئے تھے انھوں نے کہا تم ہم سے زیادہ اس کے حق دار نہیں ہو، ہم نے دشمن کو ان سے ہٹایا اور انھیں مار بھگایا ہے۔ جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد گھیر ڈالے رکھا، انھوں نے کہا، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیرے میں رکھا اور اس بات سے ڈرے کہ دشمن کسی طرح کی غفلت میں آپ کو نقصان نہ پہنچائے، چنانچہ ہم اس کام میں مشغول رہے، تو اس وقت یہ آیات اتریں : ﴿ يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ﴾ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دشمن کی زمین میں حملے کے لیے جاتے تو چوتھا حصہ بطور نفل (زائد) دیتے تھے، پھر جب واپس آتے، لوگ تھکے ہوئے ہوتے تو تیسرا حصہ بطور نفل عطا فرماتے تھے اور آپ خصوصاً زائد حصے دینا پسند نہیں کرتے تھے اور فرماتے تھے : ’’مومنوں کا قوت والا ان کے کمزور پر غنیمت واپس لاتا ہے۔‘‘ [ أحمد :5؍323، ۳۲۴، ح ۲۲۷۶۲، وقال شعیب الأرنؤوط حسن لغیرہ ]ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان اور مستدرک حاکم میں بھی اس حدیث کے بعض اجزا مروی ہیں۔ 2۔ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ....: فرمایا آپ سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ یہ کس کا حق ہیں، کس طرح تقسیم ہوں گی، آپ فرما دیں کہ غنیمتیں حقیقت میں تم میں سے کسی کی بھی ملکیت نہیں، یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت ہیں، تمھارا ان میں کچھ دخل نہیں، کیونکہ فتح تمھاری طاقت سے نہیں بلکہ اللہ کی مدد سے ہوئی ہے۔ آگے دور تک یہ بات بیان کی ہے کہ فتح اللہ کی مدد ہی سے ہوئی ہے اور ہوتی ہے، اس لیے تم اللہ سے ڈرو اور ان اموال کی وجہ سے تمھارے باہمی تعلقات میں جو خرابی آئی ہے اسے درست کرو اور اگر تم مومن ہو تو اللہ اور اس کا رسول جو بھی حکم دیں اس کی اطاعت کرو، جسے جتنا دیں یا نہ دیں، وہ اس پر راضی رہے اور اس مال کی بنا پر تمھارے آپس کے تعلقات ہر گز خراب نہیں ہونے چاہییں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم آپس کے تعلقات بگاڑنے سے بچو، اس لیے کہ یہ چیز (دین) کو مونڈ دینے والی ہے۔‘‘ [ ترمذی، صفۃ القیامۃ، باب فی فضل صلاح ذات البین : ۲۵۰۸، عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] تفسیر ابن کثیر میں یہاں مسند ابی یعلی کے حوالے سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث نقل کی گئی ہے جس میں اپنے بھائی کو معاف کرنے والے کے لیے اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں جانے کا ذکر ہے، یہ روایت مستدرک میں بھی ہے، جسے امام حاکم نے صحیح کہا ہے، مگر ذہبی نے اس کے ایک راوی عباد کو ضعیف اور اس کے شیخ کو ’’لَا يُعْرَفُ‘‘ کہا ہے۔ 3۔ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ: اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو بھی ایمان کی شرط قرار دیا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے مراد (جیسا کہ ظاہر ہے) آپ کی سنت کی پیروی ہے، لہٰذا جو شخص آپ کی سنت سے منہ موڑ کر صرف قرآن کی اطاعت کرنا چاہتا ہے (جبکہ حدیث کے بغیر قرآن پر عمل کسی صورت ممکن ہی نہیں) وہ قرآن کی واضح تصریح کے مطابق دائرۂ ایمان سے خارج ہے۔