سورة البقرة - آیت 108

أَمْ تُرِيدُونَ أَن تَسْأَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَىٰ مِن قَبْلُ ۗ وَمَن يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کیا تم بھی اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا چاہتے ہو ، جیسے پہلے (زمانہ میں) موسیٰ (علیہ السلام) سے سوال ہوچکے ہیں اور جو کوئی ایمان کے بدلے کفر لے ۔ وہ سیدھی راہ سے گمراہ ہوا ۔ (ف ١)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

1۔ یہاں اگرچہ بیان نہیں ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام سے کیا سوال کیا گیا، مگر پیچھے گزر چکا ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کو کھلم کھلا دیکھنے کا مطالبہ کیاگیا تھا۔ (دیکھیے البقرۃ : ۵۵ ) اہل کتاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ایسی ہی گستاخی کا رویہ اختیار کیا، چنانچہ سورۂ نساء (۱۵۳) میں ہے : ’’اہل کتاب تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو ان پر آسمان سے کوئی کتاب اتارے، سو وہ تو موسیٰ سے اس سے بڑی بات کا مطالبہ کر چکے ہیں ، چنانچہ انھوں نے کہا ہمیں اللہ کو کھلم کھلا دکھلا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے گستاخی پر مشتمل سوالات کے علاوہ وحی اترنے کے زمانہ میں ایسی چیزوں کے متعلق سوال سے بھی منع فرما دیا جو اگر ظاہر کر دی جائیں تو ناگوارہوں ۔ دیکھیے سورۂ مائدہ (۱۰۱) اور اس کا حاشیہ۔ 2۔گستاخانہ سوالات کو اللہ تعالیٰ نے ایمان کے بدلے کفر کو اختیار کرنا قرار دیا ہے۔