سورة الاعراف - آیت 187

يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي ۖ لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ۚ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً ۗ يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تجھ سے قیامت کی بابت پوچھتے ہیں کہ کب قائم ہوگی ، تو کہہ اس کا علم تو فقط میرے رب کو ہے ، وہی اس کے وقت پر اسے کھول دکھائے گا وہ گھڑی آسمان وزمین میں بھاری بات ہے ‘ تم پر آئے گی تو اچانک آئے گی ، تجھ سے ایسے پوچھتے ہیں گویا تو اس کا متلاشی ہے ‘ تو کہہ اس کا علم تو فقط خدا کو ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے (ف ١) ۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَيَّانَ مُرْسٰىهَا: ’’السَّاعَةِ ‘‘ ایک گھڑی، لمحہ، پل یا سیکنڈ، کیونکہ قیامت اچانک ایک ہی لمحے میں برپا ہو جائے گی۔ ’’اَيَّانَ ‘‘ زیادہ صحیح یہی ہے کہ ’’اَيٌّ ‘‘سے ’’فَعْلَانَ‘‘ کا وزن ہے، ظرف زمان بمعنی ’’مَتٰي‘‘ یعنی کب۔ ’’ مُرْسٰىهَا ‘‘یہ ’’اَرْسٰي يُرْسِيْ‘‘ باب افعال سے مصدر میمی ہے، لازم و متعدی دونوں معنوں میں آتا ہے، زیادہ تر بہت بھاری چیز کے ٹھہرنے، گڑ جانے، گاڑ دینے اور ٹھہرا دینے کو کہتے ہیں، جیسے فرمایا : ﴿ وَ الْجِبَالَ اَرْسٰىهَا ﴾ [ النازعات : ۳۲ ] ’’اور پہاڑ، اس نے انھیں گاڑ دیا۔‘‘ ’’اَرْسَتِ السَّفِيْنَةُ ‘‘ ’’بحری جہاز لنگر انداز ہوا۔‘‘ ’’ اَيَّانَ مُرْسٰىهَا ‘‘ کا معنی ہے ’’اَيَّانَ وُقُوْعُهَا ‘‘ کہ اس کا واقع ہونا کب ہے؟ (قاموس) توحید، نبوت اور قضا و قدر کے بعد اب چوتھی چیز قیامت کے بارے میں بات ہو رہی ہے، کیونکہ قرآن میں یہ چاروں چیزیں اصل بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ....: ’’اِنَّمَا ‘‘ کلمۂ حصر ہے، یعنی اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہے، اس نے یہ بات نہ کسی مقرب فرشتے کو بتائی ہے نہ کسی نبی مرسل کو۔ دیکھیے سورۂ نازعات (۴۴) اور نمل (۶۶)۔ ثَقُلَتْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ اس کی ہیبت سے زمین و آسمان لرزتے ہیں، کیونکہ وہ سب اس وقت زیر و زبر ہو جائیں گے۔ دیکھیے سورۂ تکویر، انفطار، انشقاق، قمر (۴۶) اور حج (۱، ۲) دوسرا یہ کہ اس کا علم زمین و آسمان سے بھی برداشت نہیں ہو سکتا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے صرف اپنے پاس رکھا ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے ’’الفوز الکبیر‘‘ میں اس کا معنی ’’خَفِيَتْ ‘‘ کیا ہے، یعنی وہ آسمانوں اور زمین میں کسی کو معلوم نہیں۔ابن جزی نے فرمایا : ’’ ثَقُلَتْ ثَقُلَ عِلْمُنَا اَيْ خَفِيَ‘‘ یعنی اس کا علم مخفی ہے۔ لَا تَاْتِيْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً: بے شک اس کی علاماتِ عامہ اور علاماتِ خاصہ، مثلاً دجال، دابہ، یاجوج ماجوج کا خروج اور عیسیٰ علیہ السلام کا نزول وغیرہ بتائی گئی ہیں، مگر ان واقعات میں سے بھی کوئی اس کا عین مقرر وقت نہیں کہ اس کے ساتھ ہی قیامت آ جائے، اصل وقت صرف اللہ کے پاس ہے اور وہ اچانک یک لخت آئے گا۔ يَسْـَٔلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا: ’’حَفِيٌّ ‘‘ اصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جس نے کسی چیز کے متعلق بار بار پوچھ کر اچھی طرح اس کا علم حاصل کر رکھا ہو، یعنی یہ لوگ آپ سے بار بار اس طرح پوچھتے ہیں جیسے آپ نے بڑی کرید اور جستجو کے بعد اس کا پورا پورا علم حاصل کر لیا ہے۔