وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ وَظَنُّوا أَنَّهُ وَاقِعٌ بِهِمْ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اور جب ہم نے جڑ سے اکھاڑ کے پہاڑ ان پر اٹھایا تھا ، جیسے کہ سائبان ہوتا ہے ، اور وہ سمجھتے تھے کہ وہ ان پر گر پڑے گا (ہم نے کہا تھا) کہ جو ہم نے تم کو دیا ہے اسے زور سے پکڑو ، اور جو اس میں لکھا ہے اسے یاد کرتے رہو) شاید تم ڈرو (ف ١) ۔
وَ اِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ....: ’’نَتَقَ يَنْتِقُ ‘‘ کا معنی ’’کسی چیز کو زور سے کھینچ کر ہلانا‘‘ ہے۔ (راغب) یہاں پہاڑ کا ذکر ہے اور سورۂ بقرہ میں طور کا ذکر ہے، یا تو وہ طور نامی پہاڑ تھا اور یا لفظ ’’طور‘‘ عام پہاڑ کے معنی میں بھی آتا ہے، دونوں جگہ دونوں مراد ہو سکتے ہیں۔ بنی اسرائیل کی سابقہ سرکشیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان سے تورات کے احکام پر عمل کا پختہ عہد لینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے زلزلے کے ساتھ پہاڑ کو اکھاڑ کر ان کے سروں پر سایہ فگن کر دیا اور انھیں یقین ہو گیا کہ یہ ہم پر گرنے ہی والا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ اس ہیبت ناک ماحول میں وہ اللہ سے ڈرتے ہوئے عمل کا سچا عہد کریں۔ قوت کے ساتھ پکڑنے کا مطلب اس پر عمل کرنا ہے۔