سورة البقرة - آیت 104

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ۗ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مومنو ! تم (رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو) راعنا نہ کہا کرو اور انظرنا کہا کرو ، اور سنتے رہو ، اور کافروں کے لئے دکھ کا عذاب ہے (ف ١)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

رَاعِنَا: ”رَاعِ“ یہ باب مفاعلہ(مراعاۃ) سے فعل امر ہے، یعنی ہماری رعایت کیجیے۔ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو متوجہ کرنے کے لیے یہ لفظ استعمال کرتے، یہودی بھی اس لفظ کے ساتھ آپ کو مخاطب کرتے، مگر زبان کو پیچ دے کر لفظ بدل دیتے، جیسا کہ سورۂ نساء (۴۶) میں ہے، جس سے وہ لفظ گالی بن جاتا۔ مفسرین نے اس کی دو صورتیں بیان فرمائی ہیں ، ایک تو یہ کہ وہ ’’ رَاعِنَا ‘‘ کی بجائے ”رَاعِيْنَا“ کہتے، جس کا معنی ’’ہمارا چرواہا ‘‘ ہے۔ دوسری یہ کہ وہ اسے ”رعونت“ سے اسم فاعل قرار دے کر ”رَاعِنًا“ کہتے جس کا معنی احمق ہے اور منادیٰ غیر معین کو خطاب کی وجہ سے منصوب ہے، پھر آپس میں جا کر خوش ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو آپ کے لیے یہ لفظ استعمال کرنے ہی سے منع فرما دیا اور ”انْظُرْنَا“ کہنے کا حکم دیا، ساتھ ہی فرمایا کہ غور سے سنو، تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو متوجہ کروانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اس سے یہودیوں کی دشمنی، ان کی طبیعت کی خست اور شرارت صاف واضح ہے۔ مسلمانوں کو ان کے اعمال کے علاوہ ان کے الفاظ و اقوال کی مشابہت سے بھی منع فرمایا گیا، جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ )) ’’جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انھی میں سے ہے۔‘‘ [ أبوداؤد، اللباس، باب فی لبس الشھرۃ : ۴۰۳۱ و حسنہ الألبانی ] اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسے الفاظ جن میں بے ادبی یا گستاخی کا شبہ بھی پیدا ہوتا ہو وہ استعمال کرنا درست نہیں ۔ یہودیوں کی اسی طرح کی ایک اور کمینگی کا ذکر حدیث میں آیا ہے کہ وہ ’’السلام علیکم‘‘ کے بجائے ’’اَلسَّامُ عَلَيْكُمْ ‘‘ کہتے، جس کا معنی ہے تم پر موت ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جواب میں صرف ’’عَلَيْكَ ‘‘ کہنے کا حکم دیا کہ وہ تمھیں پر ہو۔ [ مسلم، السلام، باب النہی عن ابتداء .... : ۲۱۶۴ ]