قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
تو کہہ لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہو کر آیا ہوں ، اس اللہ کا جس کی سلطنت آسمان اور زمین میں ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہی جلاتا اور مارتا ہے ، سو تم اللہ پر اور اس کے رسول نبی امی پر ایمان لاؤ(ف ١) ۔ جو اللہ پر اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے ، اور تم اس کے تابع ہوجاؤ ، شاید تم ہدایت پاؤ(ف ٢) ۔
1۔ قُلْ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا....: یعنی میری رسالت تمام دنیا کے لوگوں کے لیے اور قیامت تک کے لیے ہے۔ ’’ جَمِيْعًا ‘‘ کے مفہوم میں یہ دونوں باتیں صاف ظاہر ہیں اور مجھے ہدایت کا پیغام پہنچانے کے لیے بھیجنے والا وہ ہے جو آسمان و زمین کا بادشاہ، اکیلا عبادت کا حق دار اور موت و حیات کا مالک ہے۔ اب مجھ پر ایمان نہ لانے کی صورت میں اپنا انجام سوچ لو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تاقیامت تمام قوموں کے لیے رسول ہونے کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر کیا ہے۔ دیکھیے سورۂ سبا (۲۸)، فرقان ( ۱) اور احزاب (۴۰)۔ ’’جہاں تک پہنچے‘‘ کے الفاظ کے ساتھ رسالت عام ہونے کی تصریح کے لیے دیکھیے سورۂ انعام (۱۹) عرب اور اہل کتاب کی صراحت کے ساتھ دیکھیے سورۂ آل عمران (۲۰) اور دوسری آیات۔ 2۔ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ....: پچھلی آیت میں اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصف نبی اُمی کا خاص ذکر فرمایا ہے اور قرآن مجید میں کئی مقامات پر نبوت سے پہلے آپ کے ان پڑھ ہونے اور پہلی کتابوں اور ایمان کی حقیقت سے بالکل بے خبر ہونے کو کئی جگہ بیان فرمایا ہے، چنانچہ فرمایا : ’’آپ اس سے پہلے نہ لکھنا جانتے تھے نہ پڑھنا۔‘‘ [ العنکبوت : ۴۸ ] اور فرمایا : ’’یہ غیب کی خبروں سے ہے۔ اس سے پہلے انھیں نہ آپ جانتے تھے، نہ آپ کی قوم۔‘‘ [ ھود : ۴۹ ] اور فرمایا : ’’آپ وحی سے پہلے نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے۔‘‘ [ الشوریٰ : ۵۲ ] بلکہ فرمایا : ’’آپ کو امید تک نہ تھی کہ آپ کو کتاب عطا کی جائے گی۔‘‘ [ القصص : ۸۶ ] کئی لوگوں پر تعجب ہوتا ہے کہ وہ قرآن کو مانتے ہیں پھر بھی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہونے سے بھی پہلے ہر چیز کا علم رکھتے تھے، پھر آپ کا خاص وصف امی کیا ہوا کہ ایک بالکل ان پڑھ شخص دنیا کے تمام پڑھے لکھے، دانشور، فلسفی اور دوسرے علوم میں کمال رکھنے والوں کا استاد بن گیا۔ 3۔ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ: اللہ تعالیٰ کے کلمات کے لامحدود ہونے کا تذکرہ دیکھیے سورۂ کہف (۱۰۹) اور لقمان (۲۷) میں۔ 4۔ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ: معلوم ہوا اب ہدایت صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور آپ کی پیروی میں ہے اور وہ یہ ہے کہ زندگی (انفرادی ہو یا اجتماعی اس) کے ہر گوشہ میں آپ ہی کی ہدایت اور نقش قدم پر چلا جائے، اس کے علاوہ ہدایت کا کوئی راستہ نہیں۔ دیکھیے سورۂ نجم (۳، ۴)۔