وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ أَتَذَرُ مُوسَىٰ وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ۚ قَالَ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ
اور قوم فرعون کے سردار بولے ، کیا تو موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کی قوم کو چھوڑتا ہے تاکہ زمین میں فساد کریں ، اور تجھے اور تیری معبودں کو ترک کئے رہیں ؟ اس نے کہا اب ہم ان کے لڑکوں کو قتل کرینگے ، اور لڑکیوں کو جیتا رکھیں گے ، اور ہم ان پر غالب ہیں (ف ١) ۔
1۔ وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ....: موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کے غلبے اور جادوگروں کے ایمان لانے پر اگرچہ چند ہی نوجوانوں نے ایمان لانے کی جرأت کی اور وہ بھی فرعون اور اس کے سرداروں سے ڈرتے ہوئے۔ (دیکھیے یونس : ۸۳) تاہم فرعون کی بنی اسرائیل کے خلاف کارروائیاں کچھ کم ہو گئیں تو اس کے سرداروں نے اسے یہ کہہ کر بھڑکایا کہ کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑے رکھے گا کہ وہ زمین میں فساد کریں، یعنی وہ تمھاری رعیت کو دعوت دیتے پھریں کہ وہ تمھارے اور تمھارے معبودوں کے بجائے اللہ واحد کی عبادت کریں اور ملک میں دعوتِ توحید سے فساد پھیلاتے پھریں۔ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’تعجب ہے کہ یہ لوگ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کے فساد پھیلانے سے ڈر رہے ہیں، حالانکہ فساد پھیلانے والے تو وہ خود ہیں۔‘‘ فرمایا : ﴿ اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَ لٰكِنْ لَّا يَشْعُرُوْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۱۲ ] ’’سن لو! یقیناً وہی تو فساد ڈالنے والے ہیں اور لیکن وہ نہیں سمجھتے۔‘‘ 2۔ وَ يَذَرَكَ وَ اٰلِهَتَكَ: ’’آلِهَةٌ ‘‘ یہ ’’اِلٰهٌ ‘‘ کی جمع ہے، جس کا معنی معبود ہے، یعنی وہ تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑے رکھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کے بھی کچھ معبود تھے جن کی وہ عبادت کرتا تھا۔ بعض صحابہ کی قراء ت میں ’’اِلَاهَتَكَ‘‘ ہے، ’’اِلَاهَةٌ ‘‘ کا معنی عبادت ہے، یعنی وہ تجھے اور تیری عبادت کو چھوڑے رکھیں، یہ بھی اگرچہ درست ہے مگر مشہور قراءت پہلی ہی ہے۔ اس لیے اہل علم نے اس کی کئی توجیہات کی ہیں اور وہ سبھی ممکن ہیں۔ ایک توجیہ اس کی یہ ہے کہ وہ واقعی ربِ اعلیٰ ہونے کے اعلان کے باوجود خود کئی معبودوں کی پرستش کرتا تھا اور ان معبودوں کے تقدس کا عقیدہ اس کی قوم میں بھی موجود تھا، مثلاً گائے کی پرستش تو عام تھی، جس کے نتیجے میں ان سے میل جول اور ان کی محکومیت کی وجہ سے بنی اسرائیل میں بھی یہ عقیدہ در آیا تھا۔ جس کی دلیل آزاد ہونے کے بعد بھی گائے ذبح کرنے کے حکم پر ان کے بہانے اور موسیٰ علیہ السلام کے کوہِ طور پر جانے کے بعد سامری کا بچھڑا بنا کر قوم کو اس کی عبادت پر لگانا ہے۔ مصری تہذیب ہندوؤں سے ملتی جلتی تھی۔ مشرکانہ مذاہب میں عجیب پیچیدگی پائی جاتی ہے، عموماً ان کے ہاں اصل خدا کسی انسان میں اتر آتا ہے جو مسلمان صوفیا کے ہاں حلول کے نام سے معروف ہے۔ فرعون اپنے آپ کو ان تمام معبودوں کا نمائندہ قرار دے کر اپنے آپ کو ربِ اعلیٰ کہلاتا تھا اور اپنے سرداروں سے کہتا تھا : ﴿ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرِيْ ﴾ [ القصص : ۳۸ ] ’’مجھے اپنے سوا تمھارا کوئی معبود معلوم نہیں۔‘‘ یہ وہی بات ہے جو بعض مسلمانی کا دعویٰ کرنے والوں نے کہی ہے وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر اتر پڑا ہے مدینے میں مصطفی ہو کر مگر یہ لوگ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اصلی خدا مان کر بھی بہت سے زندہ خداؤں، مثلاً مرشدوں اور مردہ خداؤں کی قبروں کی پرستش کرتے ہیں اور ان میں بھی اللہ کے ظہور کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اس قسم کے تمام گندے عقیدوں سے بری ہیں۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ درحقیقت فرعون دہری تھا۔ کائنات کا کوئی بنانے والا مانتا ہی نہ تھا، اس کے نزدیک بادشاہ ہی معبود کا مقام رکھتا تھا کہ جو اس کے منہ سے نکلے وہی دین اور قانون ہے۔ اپنے سرداروں کے لیے یہ مقام وہ خود رکھتا تھا اور اس کے سردار اپنے اپنے علاقے کی رعایا کے لیے یہ مقام رکھتے تھے، چنانچہ اس نے اپنے بت بنوا کر لوگوں کے گھروں میں رکھے ہوئے تھے، جیسا کہ آج کل کے اکثر حکمران اپنی تصاویر اور مجسموں کے ذریعے سے لوگوں کے ذہنوں میں اپنی خدائی بٹھاتے ہیں، کمیونسٹ حکمران سٹالن، لینن اور ماؤزے تنگ بھی خدا کے منکر ہونے کے باوجود لوگوں کے دماغوں میں اپنی خدائی کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ جمہوری حکمران بھی اس کوشش میں حتی الوسع کمی نہیں کرتے، اگرچہ وہ نام عوام کا استعمال کرتے ہیں۔ تیسری توجیہ یہ ہے کہ حاکمیت میں وہ اپنے سوا کسی کو معبود نہیں مانتا تھا، البتہ غیبی مدد کرنے والے کچھ معبود اس نے بھی رکھے ہوئے تھے، جس طرح آج کل بعض حکمران قانون اپنا چلاتے ہیں مگر غیبی مدد حاصل کرنے کے لیے کئی ہستیوں کی نیاز دیتے رہتے ہیں۔ چنانچہ وہ کعبہ کی طرح پختہ قبروں کو عرق گلاب سے غسل دیتے اور بزرگوں کو کرنی والا سمجھتے ہیں اور کچھ کچھ اللہ کو بھی مان لیتے ہیں، مگر کیا مجال کہ اس کا کوئی قانون عمل میں لائیں یا لانے دیں۔ 3۔ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَآءَهُمْ....: یعنی ہم جو ظلم و ستم موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے پہلے بنی اسرائیل پر کرتے تھے اس کا سلسلہ پھر سے شروع کریں گے، اس طرح یہ تباہ ہو جائیں گے اور ان کا تخم تک باقی نہیں رہے گا۔ ان کے مرد مارے جائیں گے اور صرف عورتیں بچیں گی، وہ کیا کر سکیں گی، ان کو ہم لونڈیاں بنا کر اپنے گھروں میں رکھیں گے۔ ابھی تک اس کی جرأت نہ کرنے کے لیے اس نے یہ حیلہ تراشا کہ ایسی کیا جلدی ہے، ہم ان پر پوری طرح قابو رکھتے ہیں، جب چاہیں گے ایسا کر لیں گے۔