سورة البقرة - آیت 89

وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ ۚ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور جب ان کے پاس خدا کی طرف سے کتاب آئی جو اس چیز کو جو ان کے پاس ہے سچا بتاتی ہے اور حالانکہ وہ پہلے سے کافروں پر (اسی کے ذریعہ سے) فتح مانگتے تھے (ف ١) پس جب وہ ان کے پاس آیا جسے پہچان رکھا تھا تو اس سے منکر ہوگئے پس اللہ کی لعنت ہے کافروں پر ۔

تفسیرتیسیرارحمٰن - محمد لقمان سلفی

141: عبداللہ بن عباس (رض) وغیرہ سے مروی ہے کہ یہود جزیرہ عرب میں ذلت و مسکنت کی زندگی گذار رہے تھے، اس لیے وہ اپنے لیے ایک طرح کی قوت حاصل کرنے کے لیے بعض قبائل عرب کے حلیف بن کر رہنا پسند کرتے تھے، اور جب اوس و خزرج والے ان پر زیادتی کرتے تو کہتے کہ عنقریب آخری نبی مبعوث ہونے والا ہے، ہم اس کے ساتھ مل کر تم سے جنگ کریں گے اور غلبہ حاصل کریں گے، لیکن جب اللہ نے اس آخری نبی کو عربوں میں مبعوث کیا تو حسد کے مارے کہ یہ نبی بنی اسرائیل میں سے کیوں نہ ہوا، ان پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ عبداللہ بن سلام نے اپنے اسلام لانے کے واقعہ میں یہودیوں کو خطاب کر کے کہا تھا کہ اے قوم یہود، اللہ سے ڈرو، اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، تم جانتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور دین حق لے کر آئے ہیں (بخاری)۔ 142: یہود کے اس صریح کفر اور انکار حق کی وجہ سے اللہ نے ان پر لعنت بھیج دی۔ یہاں (الکافرین) سے مراد یہود مدینہ ہیں۔