سورة الانعام - آیت 125

فَمَن يُرِدِ اللَّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ۖ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ ۚ كَذَٰلِكَ يَجْعَلُ اللَّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

سو جسے اللہ ہدایت کرنا چاہتا ہے ، اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہتا ہے ، اس کاسینہ نہایت تنگ بھیجا ہوا کردیتا ہے ، گویا وہ زور سے آسمان پر چڑھتا ہے ، اسی طرح اللہ بےایمانوں پرناپاکی ڈالے گا (ف ١) ۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(123) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو خبر دی ہے کہ ہدایت و گمراہی اس کے اختیار میں ہے، جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے ہدایت دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے تقاضائے عدل کے مطابق گمراہ کردیتا ہے، اور ہدایت و گمراہی ہر دور کا ایک مقرر نظام ربانی ہے، جو ہدایت چاہتا ہے اور اس کی طلب صادق ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کے راستوں کو آسان بنا دیتا ہے ،، اور تمام اسباب مہیا کردیتا ہے، اور قبول ایمان اور اتباع اسلام کے لیے دروازوں کو کھول دیتا ہے،اور جو گمراہی چاہتا ہے اور اسکی خواہش کرتا ہے، اس کے لئے اللہ تعالی گمراہی کے تمام دروازوں کو کھول دیتا ہے اور اس کا دل تنگ ہوجاتا ہے کہ ایمان کے داخل ہونے کے لیے اس میں گنجائش باقی نہیں رہتی، اور اس کی حالت اس آدمی جیسی ہوتی ہے جو بتکلف تمام آسمان کی طرف چڑھنا چاہتا ہے، لیکن وہ ایسا نہیں کر پاتا یعنی توحید اور ایمان اس کے دل میں داخل نہیں ہو پاتا۔ (124) ابن عباس (رض) کہتے ہیں، یہاں"رجس " سے مراد شیطان ہے، یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ کافروں کا دل تنگ بنا دیتا ہے اور اس میں نور ایمان داخل نہیں ہو پاتا اسی طرح اللہ تعالیٰ اس پر شیطان کو بھی مسلط کردیتا ہے جو اسے ہمیشہ گمراہ کرتا رہتا ہے اور راہ حق سے روکتا ہے۔